جلتی ہوئی جنت: کشمیر ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے
22 اگست 2018یہ مئی کے شروع کے دن تھے، جب نسیمہ بانو نے اپنے بیٹے توصیف شیخ کو موبائل فون پرکہا تھا، ’’اپنے راستے پر قائم رہنا۔ میں تمہاری کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔‘‘ اس وقت بھارتی فوجی توصیف شیخ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس سے چند ہی لمحے پہلے اس تئیس سالہ کشمیری عسکریت پسند نے اپنی والدہ کو فون پر کہا تھا، ’’دعا کریں، میری شہادت قبول ہو۔ ہم آخرت میں ملیں گے۔‘‘
پھر بھارتی فوجی آپریشن کے بعد توصیف کی گولیوں سے چھلنی لاش ہی ملی تھی۔ توصیف کا شمار کلگام کے شیخ خاندان کے ان بارہ افراد میں ہوتا ہے، جو بھارتی فورسز کے ساتھ لڑائی کرتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔ اب اس خاندان میں صرف ایک ہی بیالیس سالہ جنگجو بچا ہے۔ محمد عباس شیخ توصیف کے چچا ہیں۔
واضح طور پر غصے کی حالت میں نسیمہ بانو کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جنگ میں کوئی نصف اقدامات نہیں ہوتے۔ کشمیری تب تک قربانیاں دیتے رہیں گے، جب تک وہ آزادی حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘
بھارت الزام عائد کرتا ہے کہ کشمیر میں لڑنے والوں میں بہت پاکستانی عسکریت پسند بھی ہیں جبکہ اسلام آباد حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ تاہم جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کشمیر میں مقامی عسکریت پسندوں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ کشمیر میں انیس سو اسی کی دہائی کے بعد سے پینتالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اب نوجوان کشمیری اور پڑھے لکھے پیشہ ور بھی ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ شیخ توصیف اٹھارہ برس کی عمر میں عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی پروفیسر محمد بھٹ نے بھی بندوق اٹھا لی تھی اور عسکریت پسندوں کے گروہ میں شامل ہونے کے چالیس گھنٹے بعد ہی ان کی ہلاکت ہو گئی تھی۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق سکیورٹی فورسز کے تشدد اور گرفتاریوں کی وجہ سے حالیہ کچھ برسوں میں مقامی آبادی کی طرف سے عسکریت پسندی کی حمایت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ مقامی لوگ لڑائی کی جگہ پر جمع ہو کر بھارتی فورسز پر پتھر پھینکنا شروع کر دیتے ہیں اور عسکریت پسندوں کو فرار ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کے جنازوں میں شرکت کے لیے بھی دور دراز کے علاقوں سے کشمیری باشندے آتے ہیں۔
پہلے دیسی بم سے نئے دور کی کشمیری عسکریت پسندی تک کے تیس سال
عسکریت پسندی کو کچلنے کے لیے حکومتی فورسز نے گزشتہ برس آپریشن ’آل آؤٹ‘ کا آغاز کیا تھا اور اب تک اس مسلم اکثریتی علاقے میں 350 عسکریت پسندوں کو ہلاک اور درجنوں علیحدگی پسند لیڈروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں کشمیری عسکری لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے ایسے کشمیری نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو حکومتی دستوں کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کا جرمن نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ سب حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، ’’آج کے نوجوانوں میں اس سے کہیں زیادہ غصہ ہے، جیسا بیس برس پہلے ہماری نسل کے نوجوانوں میں ہوتا تھا۔‘‘
یاسین ملک اب پرامن جدوجہد کرتے ہیں اور کشمیر کی پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے علیحدگی کے حامی ہیں۔ ان کا ایک سوال کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اگر آپ سیاسی اختلافات پر پابندی عائد کر دیں گے تو کیا ہوگا؟ مزاحمتی تحریک کو جگہ نہیں دیں گے اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے اندھا کریں گے تو کیا ہو گا؟‘‘
کشمیری امور کے ماہر ڈیوڈ دیوداس کے مطابق جب ایک دہائی قبل عسکریت پسندی میں کمی آئی تھی تو نئی دہلی حکومت کو اس کے مکمل انسداد کے لیے اقدامات کرنا چاہیے تھے۔ لیکن تب ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی جب ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے مقامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے اتحاد کیا، تو زیادہ تر کشمیریوں نے یہی سمجھا کہ انہیں ’بیچ‘ دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کو مسلم مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی خود مختادی اور اس خطے میں بھارتی فوجیوں کی تعداد میں کمی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
اسٹیٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کا کہنا تھا۔ ’’آپریشن آل آؤٹ کامیاب نہیں ہو گا۔ یہ عوامی تحریک ہے، نہ کہ عسکریت پسندوں کی۔ آپ تمام لوگوں کو کس طرح ہلاک کر سکتے ہیں؟‘‘
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس خطے میں چین کے معاشی مفادات بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ نہیں چاہیے گا کہ خطے میں بدامنی پیدا ہو۔ لہٰذا وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کی بات کرے گا۔ لیکن ڈیوڈ دیوداس کے مطابق کشمیر کے حوالے سے ایک نئی ’’گریٹ گیم‘‘ ابھر کر سامنے آئی ہے اور وسیع تر آبی وسائل اور سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کئی ضمنی منصوبوں کی وجہ سے بھی پاکستان اور چین دونوں ہی کشمیر پر اپنا اثر و رسوخ زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔
ا ا / م م ( ڈی پی اے)