جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس: اس مرتبہ بہت کچھ مختلف ہے
6 ستمبر 2009امریکی صدر باراک اوباما عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اوباما نے اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش کے برعکس اقوام متحدہ کے ساتھ زیادہ قریبی رابطوں کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر تین روز کے لئے اپنا زیادہ تر وقت نیویارک میں گزارنے کا اعلان کیا ہے، جہاں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر قائم ہیں۔ اس دوران باراک اوباما اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرنے والے پہلے امریکی صدر ہوں گے۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا موضوع 'جوہری عدم پھیلاؤ' ہوگا۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد بھی دوبارہ اپنی صدارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ نیویارک پہنچیں گے۔ لیبیا کے رہنما معمر قذافی اپنے 40 سالہ دورِ اقتدار میں پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس وقت وہ افریقی یونین کے چیئرمین بھی ہیں جبکہ جنرل اسمبلی کا آئندہ سربراہ بھی لیبیا سے ہوگا۔
جنرل اسمبلی کے اس اجلاس سے روسی صدر دیمتری میدویدیف اور چینی صدر ہُوجن تاؤ بھی پہلی مرتبہ خطاب کریں گے۔ اس سے قبل یہ دونوں رہنما اپنے حکومتی نمائندوں یا دیگر عہدے داروں کو ایسے اجلاسوں میں شرکت کے لئے بھیجتے رہے ہیں۔
معمر قذافی اور محمود احمدی نژاد جیسی متنازعہ عالمی شخصیات کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور صدر اوباما کی وہاں موجودگی کے حوالے سے چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں۔ واشنگٹن اور تہران حکومت کے درمیان سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں جبکہ لیبیا کے ساتھ لاکربی حملے کے سزایافتہ مجرم عبدالباسط المغراہی کی اسکاٹ لینڈ کی جیل سے متنازعہ رہائی سے متعلق نئی بحث چھڑی ہوئی ہے۔
اوباما یہ نہیں چاہیں گے کہ اجلاس کے دوران احمدی نژاد سے ان کا سامنا ہو۔ اس میں انہیں کامیابی ہو بھی سکتی ہے۔ تاہم معمر قذافی کو وہ کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کر پائیں گے، کیونکہ سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں قذافی بھی موجود ہوں گے، جس کی صدارت اوباما کرنے والے ہیں۔ لیبیا سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن ملک ہے اور قذافی کی اس اجلاس میں شرکت لازمی ہے۔
بعض حلقے مطالبے کر رہے ہیں کہ احمدی نژاد اور معمر قذافی کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جانا چاہئے۔ تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر امریکہ ایسا کوئی قدم اٹھاتا بھی ہے تو وہ اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے 1947 میں طے پانے والے میزبان ملک کے طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔
یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اوباما ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے نئے اقدامات کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور فلسطینی رہنما محمود عباس کی ممکنہ ملاقات کی میزبانی سے متعلق قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے خطے کے یہ دونوں رہنما ان دنوں نیویارک میں موجود ہوں گے۔
دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل کے بارے میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور لیبیا کے رہنما معمر قذافی کی جانب سے سخت رد عمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک