جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
12 جولائی 2010پاکستانی شہر لاہور ميں ايک بہت مشہور مزار پر دو خودکش حملہ آوروں نے اپنے ساتھ 40 سے زائد افراد کو ہلاک کرديا۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے کہ اس سلسلے ميں شبہ شدت پسند مسلمانوں پر ہے۔ اخبار مزيد تحرير کرتا ہے:
حاليہ عرصے کے دوران پاکستان ميں ايک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کے نام پر دوسرے مسلمانوں پر حملوں ميں اضافہ ديکھنے ميں آيا ہے۔ جيسا کہ معمول ہے، پاکستان ميں اس کی ذمہ داری بيرونی ممالک پر ڈالی جارہی ہے۔ اخبارات نے عينی شاہدوں کا حوالہ ديتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ سمجھتے ہيں کہ مجرموں کا تعلق بھارت يا امريکہ سے ہے۔ تاہم کہيں زيادہ امکان اس بات کا ہے کہ مجرموں کا تعلق پنجاب کے مسلم شدت پسندوں سے ہے، جو ايک عرصے سے انتہا پسندی پر تلے ہوئے ہيں۔ پچھلے برسوں کے دوران لاہور پنجابی طالبان کہلائے جانے والے گروپ کے حملوں کا خاص مرکز بن گيا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے مغربی حصے ميں سرگرم تحريک طالبان پاکستان سے بتايا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
بھارت ميں رياستی حکم کے تحت پٹرول کی قيمتوں میں اضافے پر ملک گير ہڑتال ہوئی۔ اس ہڑتال کی اپيل ہندو قوم پسند جماعت بھارتيہ جنتا پارٹی يا BJP اور کميونسٹ پارٹی کی طرف سے کی گئی تھی۔ اخبار Süddeutsche Zeitung لکھتا ہے کہ اپوزيشن پٹرول کی قيمتوں ميں اضافے کو واپس لينے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔ اخبار تحریر کرتا ہے:
يہ وزير اعظم من موہن سنگھ کے بچت کے اقدامات ہيں، جو پٹرول کی قيمتوں کو کم رکھنے کے لئے رياستی امداد ميں کمی اور اس طرح بجٹ کو بہتر بنانا چاہتے ہيں۔ پٹرول اور ڈيزل کے علاوہ کيروسين آئل يا مٹی کے تيل کی قيمت ميں بھی اضافہ کيا گيا ہے، جسے بھارت کے لاکھوں غريب کھانا پکانے کے لئے استعمال کرتے ہيں۔ ہڑتال سے سب سے زيادہ متاثر ہونے والے شہروں ميں بھارت کا مالياتی مرکز ممبئی،کئی ملين کی آبادی والا مشرقی بھارتی شہر کولکتہ اور اپوزيشن کے کنٹرول ميں دوسرے علاقے شامل ہيں۔ بھارت کی شمالی رياستوں اتر پرديش اور بہار ميں پوليس اور مظاہرين کے درميان جھڑپوں ميں کئی مظاہرين زخمی بھی ہو گئے۔ قيمتوں ميں حکومتی اضافے کی عام مخالفت کے باوجود تمام ہی شہری ان مظاہروں کے حامی نہيں، جن کے باعث ہونے والے نقصانات کا اندازہ 640 ملين ڈالر لگايا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
بنگلہ ديش ميں ٹيکسٹائل کی صنعت ميں کام کرنے والے کارکن کم از کم اجرتوں ميں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہيں کيونکہ موجودہ اجرتيں باوقار طور پر زندگی گذارنے کے لئے کافی نہيں ہيں۔ اخبار Neues Deutschland لکھتا ہے: کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں کا يہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تنخواہوں ميں اضافہ نہيں کر ديا جاتا۔ ٹريڈ يونين تنظيموں نے پانچ ہزار ٹکہ کم ازکم ماہانہ اجرت کا مطالبہ کيا ہے۔ اگرچہ موجودہ اجرتوں کو تين گنا کر دينے کا يہ مطالبہ حقيقت پسندانہ نہيں ہے ليکن يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ ٹيکسٹائل کی صنعت ميں کام کرنے والے بنگلہ ديشي باشندوں کو کئی عشروں سے بہت کم تنخواہيں دی جارہی ہيں اور اس کے علاوہ ان سے بہت زيادہ کام بھی ليا جاتا ہے۔ چونکہ پچھلے دنوں حکومت نے تاجروں اور صنعتکاروں کو اجرتوں کے تنازعے ميں زيادہ لچکدار رويہ پيدا کرنے کے لئے تنبيہ بھی کی، اس لئے غير حکومتی تنظيموں کو اميد ہے کہ آجروں اور ٹريڈيونينوں کے مابین کم ازکم ماہانہ تنخواہ ساڑھے تین ہزار ٹکہ مقرر کرنے پر سمجھوتہ ہو جائے گا۔ ٹريڈ يونينوں، حقوق انسانی اور محنت کشوں کے حقوق کی تنظيموں کا ايک عالمی اتحاد مغربی ممالک کے تجارتی کاروباری اداروں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ ايشيا کےجن تاجروں سے مال خريدتے ہيں، ان پر ايشيا ميں کم از کم اجرت مقرر کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے۔ يہ کم از کم اجرت اتنی ہونی چاہئے کہ اس سے بنيادی ضروريات پوری ہو سکيں۔ اس کا ايک مقصد يہ بھی ہے کہ غريب ممالک کے درميان اپنا مال بيچنے کے لئے قيمتوں کو کم سے کم رکھنے کا مقابلہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔
ترقياتی امداد کی جرمن سوسائٹی GTZ پچھلے تين برسوں ميں نيپال ميں سابقہ پيپلز لبريشن آرمی کے 27 کيمپوں پر پانچ ملين يورو خرچ کر چکی ہے۔ جی ٹی زيڈ اس رقم کی مدد سے سابقہ پيپلز لبريشن آرمی کے 20 ہزار کارکنوں کو معاشرے ميں دوبارہ شامل کرنا چاہتی ہے۔ نيپال میں امن اور جمہوريت کے استحکام کے لئے یہ جرمن ادارہ اگلے دو برسوں ميں مزيد پچيس لاکھ یورو خرچ کرے گا۔ بون سے شائع ہونے والا جرمن اخبار General Anzeiger لکھتا ہے:
پيپلز لبريشن آرمی PLA نے نیپال ميں غربت اور استحصال کے خلاف 10 سال تک جنگ کی۔ اس کے بعد ہی سن 2006 ميں امن سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی پی ايل اے اپنے کيمپوں ميں واپس چلی گئی تھی۔ تاہم حکومت نے ضروری اقتصادی ڈھانچے کی تعمير کا وعدہ ابھی تک پورا نہيں کيا۔ جرمن ترقياتی امدادی تنظيم GTZ کی مدد کے بغير وہاں نہ تو پانی اور نہ ہی بجلی وغيرہ کی فراہمی کا کوئی انتظام ہوتا۔ پی ايل اے کے کيمپ کمانڈر راجيش نے اس جرمن امدادی تنظیم کی تعريف کرتے ہوئے کہا:
’’سابق فوجی جرمن رقوم کے ذريعے مختلف شعبوں ميں تربيت حاصل کر رہے ہيں۔ جی ٹی زيڈ وہ واحد تنظيم ہے جو غير جانبداری سے مدد ديتی ہے اور اسی جذبے سے کام بھی کرتی ہے۔ جی ٹی زيڈ PLA کے سابق فوجيوں کو کمپيوٹر سائنس،اليکٹريکل ٹيکنالوجی، اليکٹرونکس، صحت اور علاج اور دوسرے شعبوں ميں تربيت دے رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
سری لنکا ميں ايک وزير اور بدھ راہبوں کی قيادت میں نکالے جانے والے ايک جلوس ميں مظاہرين نے ملک ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کی تحقيقات کا مطالبہ کيا ہے۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے:
سری لنکا ميں حکومت اور اس کے حامی ايک عرصے سے عالمی برادری کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر رہے ہيں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کی تحقيقات کرائی جائے۔ الزام ہے کہ فوج نے تامل ٹائيگرز کے خلاف کارروائی کے دوران سوچے سمجھے انداز میں شہری آبادی کو بھی نشانہ بنايا تھا۔ غير جانبدار عالمی مبصرين کا اندازہ ہے کہ خانہ جنگی کے صرف آخری چند مہينوں کے دوران کم ازکم سات ہزار شہری ہلاک ہوئے تھے۔ کولمبو میں ملکی حکومت شہری ہلاکتوں کی ترديد کرتے ہوئے تحقيقات کے مطالبے کو سری لنکا کے اندرونی معاملات ميں مداخلت قرار ديتی ہے۔
تحریر: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک