جنوبی لیبیا کے صحرائی علاقوں میں اسلامی شدت پسندوں کا راج
26 اکتوبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سکیورٹی فورسز سے بڑی مقدار میں لوٹے گئے ہتھیار اور گولا باردو اب لیبیا، الجزائر اور نائجر کے سرحدی علاقوں میں خریدا اور بیچا جا رہا ہے، جب کے عملی طور پر یہ علاقے ’نو مین ایریاز‘ بن چکے ہیں، جہاں کسی حکومت کی کوئی عمل داری نظر نہیں آتی۔
تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا میں تین برس قبل مطلق العنان آمر معمر قذافی کے خلاف مسلح تحریک کے ذریعے آمریت کا خاتمہ تو ہو گیا، تاہم اس کے بعد سے یہ ملک شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے، جب کہ متعدد ملیشیا گروہوں نے لوٹ مار کا کاروبار گرم کر رکھا ہے، جب کہ حکومت ان گروہوں کو غیر مسلح کرنے میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے۔
الجزائر اور نائجر سے ملنے والا لیبیا کا یہ علاقہ برسوں سے اسمگلروں کی جنت رہا ہے، جہاں شمالی افریقہ اور سب صحارا افریقہ کے یہ غیر قانونی گروہ کھلے عام اپنا کاروبار کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والی مسلح تحریک کے بعد اب یہ علاقہ مکمل طور پر جہادیوں کے قبضے میں ہے۔
رواں ماہ کی دس تاریخ کو فرانس کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اس کی فورسز نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی شمالی افریقی شاخ کے اس قافلے کو نائجر میں تباہ کیا، جو ہتھیاروں کی کھیپ لیبیا سے مالی پہنچا رہا تھا۔ یہ کارروائی فرانس کی اس مہم کا حصہ تھی، جو اس نے القاعدہ اِن اسلامک مغرب کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ مالی کے شمالی حصوں کو ان اسلامی شدت پسند گروہوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور دس ماہ تک اس بہت وسیع علاقے پر قابض رہے تھے، تاہم گزشتہ برس جنوری میں فرانسیسی فوج نے بڑی کارروائیوں کے بعد یہ علاقہ ان دہشت گردوں سے واپس حاصل کیا تھا۔
جہادی گروہوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے ایک ماہر محمد فضانی کے مطابق، ’مالی میں فرانسیسی فوجی مداخلت کے بعد اب لیبیا کا جنوبی حصہ شدت پسندوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ یہ کسی بھی فوج کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ اتنے وسیع علاقے ان کے قبضے سے چھڑائے، تاوقتہ کے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کیا جائے۔‘
اے ایف پی نے ایک خفیہ اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی لیبیا میں موجود ان جہادی تربیتی کیمپوں میں سینکڑوں عسکریت پسند موجود ہیں، جنہیں، مالی، عراق اور شام بھیجا جا رہا ہے۔