جنگی مشنز کے خاتمے سے نجی سکیورٹی فرمز مشکل میں
22 اکتوبر 2012پرائیوٹ سکیورٹی فرمز کی نمائندہ سٹیبیلٹی آپریشن ایسوسی ایشن ISOA کے صدر ڈگ بروکس کے بقول اس صنعت نے ہمیشہ عروج و زوال دیکھا ہے۔ روئٹرز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ صنعت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ اور زیادہ ذمہ دار ہوئی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ عراق جنگ کے اوائل کے زمانے میں سرمایے اور اختیارات کے حوالے سے کھلی چھوٹ تھی مگر وہ دن اب نہیں رہے۔
اس صنعت سے وابستہ بیشتر افراد یا تو سابق فوجی ہیں اور یا پھر جاسوس اداروں کے سابق ایجنٹ۔ ISOA میں قریب تمام نجی سکیورٹی فرمز کو نمائندگی حاصل ہے اور یہ تنظیم پرائیوٹ سکیورٹی کنٹریکٹرز سے ایک خاص ضابطہء اخلاق پر عملدرآمد کرنے کا کہتی ہے۔ اس کے باوجود اس صنعت سے وابستہ افراد خود بھی اور غیر جانبدرا مبصرین بھی پرائیوٹ سکیورٹی کنٹریکٹرز کے ضابطہء اخلاق سے متعلق شبہات رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تجارتی بحری جہازوں کو قذاقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بعض کمپنیاں خصوصی طور پر سابق فوجیوں کی خدمات فراہم کرتی ہیں جبکہ بعض کمپنیوں کے گارڈز اور اسلحہ قابل بھروسہ نہیں۔
اس تناظر میں گزشتہ ماہ لیبیا کے شہر بن غازی میں مارے جانے والے امریکی سفیر اور ان کے تین دیگر ساتھیوں کی ہلاکت کی مثال دی جاتی ہے، جن کی سلامتی کے لیے ایک برطانوی سکیورٹی فرم کے متعین کردہ گارڈز کی موجودگی میں یہ چاروں لوگ مارے گئے۔
اس صنعت سے وابستہ افراد اپنے آپ کو سائمن مین نامی سابق برطانوی فوجی سے بہت دور ظاہر کرتے ہیں، جس نے نجی سکیورٹی گارڈز کا ایک گروپ قائم کر رکھا تھا اور 2004ء میں زمبابوے سے اس حالت میں گرفتار ہوا جب وہ ایک فوجی بغاوت کی تیاری کر رہے تھے۔ ISOA کے ڈگ بروکس کہتے ہیں کہ ’زر خرید سپاہی‘ کا لقب اس صنعت میں لعنت کے مترادف ہے۔ ’’ نجی سکیورٹی فرمز کے گارڈز کو زر خرید سپاہی کہنا سراسر غلط ہے، سنجیدہ صحافی اور شعبہء تعلیم سے وابستہ افراد انہیں ایسے نہیں پکارتے۔‘‘ عراق اور افغانستان میں جنگی مشن کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ وہ نجی سکیورٹی فرمز متاثر ہوں گی، جو بہت زیادہ حد تک ان جنگی مشنز پر ہی منحصر تھیں۔
امریکا میں حالات جنگ میں ٹھیکے جاری کرنے والے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان اور عراق میں ڈھائی لاکھ سے زائد پرائیوٹ کنٹریکٹرز ملوث رہے ہیں۔ روئٹرز کی اس رپورٹ کے مطابق اب جلد کئی پرائیوٹ سکیورٹی کمپنیاں دیوالیے جیسی صورتحال کا شکار ہوسکتی ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ ایک شخص کے بقول، ’’ جنگی مشنز کے بعد بہت سی کمپنیوں کی حالت ایسی ہی ہوگی جب ایک بڑی لہر ساحل پر آکر سب کو بھگودیتی ہے اور لہر کے لوٹنے پر پتہ چلتا ہے کون کون ننگا ہے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق جیسا کہ واشنگٹن حکومت نے اب ایشیاء پیسیفک کے خطے پر زیادہ سٹریٹیجک توجہ مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو پرائیوٹ سکیورٹی فرمز بھی اب اسی مناسبت سے منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی ایک امید یہ بھی ہے کہ افغانستان میں کان کنی بڑھنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کو ان کی زیادہ سے زیادہ ضرورت پڑے گی۔
sks/ at (Reuters)