حکومت بلوچستان میں دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام کیوں؟
16 نومبر 2024پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں تمام تر حفاظتی انتطامات کے حکومتی دعوؤں کے باوجود بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے ضلع قلات میں واقع ایک فوجی کیمپ پر کیے گئے ایک تازہ حملے میں کم از کم سات اہلکار ہلاک جبکہ 15 دیگر زخمی ہو گئے۔ سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں متعدد حملہ آوروں کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے صوبے کے مختلف علاقوں میں 20 سے زائد حملے کیے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ قلات میں جمعے کی شب کیے گئے حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ گزشتہ روز عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد '' بلوچ راجی اجوئی سنگر‘‘ (براس) نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں عسکریت پسندوں کے حالیہ حملو ں کو اپنی نئی حکمت عملی کا تسلسل قرار دیا۔
ان حملوں کے باعث صوبے میں عوامی زندگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے ۔ پشتون اکثریتی علاقوں میں عدم تحفظ کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں نے معدنیات کی سپلائی کا کام بھی غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا ہے۔
شورش سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟
کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ قیام امن کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ ڈ وئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا، ''ان حملوں میں جو لوگ ملوث ہیں انہوں نے اب اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کردی ہے اور وہ سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنارہے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ''عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں اور حساس علاقوں میں فورسز کی اضافی نفری بھی تعینات کی گئی ہے۔‘‘
حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ صوبے میں کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''کالعدم تنظیمیں صوبے میں خوف و ہراس کی فضاء قائم کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ صوبائی امن و امان کی صورتحال تباہ کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، ''بلوچستان میں امن حکومت کی اولین ترجیح ہے اور پائیدار ترقی بھی امن سے مشروط ہے۔ صوبے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔‘‘
بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں غیر معمولی تیزی کیوں؟
حکومتی دعوؤں کے برعکس کوئٹہ اور صوبے کے دیگر شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کی مخدوش صورتحال پر مبصرین نے کئی سولات اٹھائے ہیں۔ ایک تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے حملے دہشت گردی کے خلاف حکومتی بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسند اپنے حملوں میں تیزی لا کر ریاستی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیموں کو پاکستانی طالبان کی معاونت بھی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بعض پشتون اکثریتی علاقوں میں بھیبلوچ عسکریت پسندوں نے کئی بڑے حملے کیے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پاکستانی طالبان کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی 2013 سے بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ مل کر حملے کرتی رہی ہے۔‘‘
عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں ٹی ٹی پی کے اثرورسوخ کی وجہ سے بلوچ عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیار مل رہے ہیں۔ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''تحریک طالبان پاکستان کے کئی دھڑے اس وقت براہ راست بلوچستان کی بدامنی میں ملوث ہیں۔ بلوچ عسکریت پسندوں اور طالبان کا مشترکہ ہدف پاکستان کو اندرونی طور عدم استحکام کا شکار بنانا ہے۔ حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے، وہ ناکافی ہیں۔ ریاستی سطح پر صوبے میں سکیورٹی پالیسی کا از سرز نو جائز ہ لینے کی ضرورت ہے۔‘‘
عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک ختم کرنے کے لیے بلوچستان حکومت نے چند یوم قبل صوبے میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایک خصوصی آپریشن کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعد خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے دوران پنجگور، کیچ، آواران اور بعض دیگر شورش ز دہ علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے کئی ارکان کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے۔
ریاستی پالیسی کو بلوچ قوم پرست رہنما دیکھتے ہیں؟
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ساجد ترین کا کہنا ہے کہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک مزید زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ڈؤیچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حکومتی اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ بلوچستان کے عوام سے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ لوگوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی نے شدید غیر یقینی کی صورتحال پیدا کی ہے۔ حکومت جو دعوے کرتی ہے اس پر عمل درآمد ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر مرکز اور صوبے میں سیاسی حکومتیں ہونے کے باجود سیاسی رہنماؤں کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''طاقت کی بنیاد پر دیرینہ سیاسی معاملات کبھی بھی حل نہیں کیے جاسکتے۔‘‘ساجد ترین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شورش کے خاتمے کے لیے زمینی حقائق کی بنیاد پر اقدامات کیے جائیں تاکہ حالات مزید خراب نہ ہوں۔
بلوچ عسکریت پسندو ں نے تازہ حملوں میں دیگر اہداف کے ساتھ ساتھ حالیہ چند دنوں کے دوران ایسے درجنوں افراد کو بھی نشانہ بنایا ہے جن پر حکومتی اداروں کے لیے مخبری کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔