خالدہ ضیاء کے خلاف قانونی کارروائی کا راستہ کھل گیا
17 ستمبر 2015خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ جمعرات سترہ ستمبر کو ڈھاکا کی ایک ہائی کورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا، جس کے تحت سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو کوئلے کی ایک کان کے اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر قانونی کارروائی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ کوئلے کی اس کان کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دیا گیا تھا تاہم یہ ٹھیکہ بعد ازاں بدعنوانی کا ایک بڑا اسکینڈل بن گیا تھا۔
خالدہ ضیاء نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ سن 2008ء میں دائر کیا گیا یہ کیس بند کر دیا جائے لیکن عدالت نے اس اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کیس میں سابق خاتون وزیر اعظم کے علاوہ دیگر پندرہ شخصیات بھی شریک بتائی جاتی ہیں۔
اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء اور دیگر افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے باراپوکُوریا Barapukuria نامی کوئلے کی کان کا ٹھیکہ چین کی نیشنل مشینری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن CMC کو دیا تھا، جس کی وجہ سے ملک کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اس کنٹریکٹ کے تحت اس کان کو چلانے کی ذمہ داری CMC کو مل گئی تھی۔
سرکاری وکیل خورشید عالم خان نے اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جسٹس محمد نظامان اور جسٹس عبدالرب نے فیصلہ کیا ہے کہ ان شخصیات کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے، اس لیے ان افراد کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ ’’اب اس کیس کو آگے بڑھانے میں کوئی دقت باقی نہیں رہی۔‘‘
دوسری طرف خالدہ ضیاء کے وکلاء نے کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی ہائی کورٹ سپریم کورٹ کی ماتحت عدالت ہوتی ہے۔ خالدہ ضیاء کی طرف سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے نتیجے میں گزشتہ کئی سالوں سے اس کیس میں کارروائی نہیں کی جا سکی تھی۔ تاہم رواں برس ہی حکومت نے اس کیس پر دوبارہ سے کارروائی شروع کی تھی۔
بنگلہ دیش کی اہم اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کا کہنا ہے کہ اس کی رہنما کے خلاف یہ کیس دراصل سیاسی مقاصد کے تحت دائر کیا گیا ہے تاہم حکومت ان الزامات کو رد کرتی ہے۔ بی این پی نے بنگلہ دیش میں 2014ء میں منعقد ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، جس کی وجہ سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی سیاسی پارٹی بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت سازی میں کامیاب ہو گئی تھی۔