خامنہ ای نے مظاہروں سے متعلق کہا، ’کچھ بھی کرو، یہ سب روکو‘
23 دسمبر 2019اسلامی جمہوریہ ایران میں نومبر کے وسط میں جو پرتشدد عوامی احتجاج شروع ہوا تھا، اس میں شہری ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار شروع سے ہی بہت متنوع اور کم بتائے گئے تھے۔ پندرہ نومبر کو شروع ہونے والے یہ عوامی احتجاجی مظاہرے ایران کے مختلف شہروں میں تقریباﹰ دو ہفتوں تک جاری رہے تھے۔
پھر اسی ماہ یعنی دسمبر کی 16 تاریخ کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ ایرانی حکومت نے ان مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد اصل سے بہت ہی کم بتائی تھی۔
ایمنسٹی کے مطابق ان پرتشدد مطاہروں میں کم از کم بھی 306 ایرانی شہری مارے گئے تھے۔ اس کے بعد امریکی دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ اسے مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور مجموعی طور پر یہ تعداد ایک ہزار تک ہو سکتی تھی۔
ڈیڑھ ہزار تک شہری ہلاکتیں
اس بارے میں ایرانی وزارت داخلہ کے تین مختلف اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتائی گئی تفصیلات کی روشنی میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان دو ہفتوں میں 1500 تک ایرانی شہری مارے گئے تھے۔ یہ بات اس لیے بہت بڑا انکشاف ہے کہ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے بتائی گئی یہ تعداد اس سے بیسیوں گنا زیادہ ہے، جس کا اعلان ایرانی حکومت نے سرکاری طور پر کیا تھا۔
تہران میں ملکی وزارت داخلہ کے ان حکام کے بقول ان ڈیڑھ ہزار ہلاک شدگان میں سے کم از کم 17 ٹین ایجر تھے جبکہ مرنے والوں میں 400 کے قریب خواتین بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ مرنے والے صرف مظاہرین ہی نہیں تھے بلکہ ان میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے بہت سے ارکان بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں مجموعی طور پر زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی تھی۔
اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک کے سب سے ہلاکت خیز مظاہرے
روئٹرز نے اپنی ایک بہت تفصیلی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران میں چند ہفتے پہلے کے یہ احتجاجی مظاہرے اتنے شدید ہو گئے تھے کہ ان کی وجہ سے ملکی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
اسی وجہ سے تہران میں سرکردہ حکومتی عہدیداروں اور متعدد اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں کے ایک اجلاس میں 17 نومبر کو آیت اللہ علی خامنہ ای نے حکام کو مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا تھا۔
اس امر کی ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے علاوہ خامنہ ای کے بہت قریبی حلقوں میں شامل تین مختلف ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ یہ مظاہرے ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے لے کر آج تک کے سب سے ہلاکت خیز اور خونریز ترین عوامی مظاہرے تھے۔
مظاہرین کا اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا مطالبہ
تہران میں ایرانی حکومت کے ایک ترجمان اور اقوام متحدہ میں ایران کے سفارتی مشن کے اعلیٰ نمائندوں سے جب اس بارے میں تصدیق کے لیے کہا گیا کہ آیا سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سترہ نومبر کو حکومت کو ایسے کسی کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا، تو تہران اور نیو یارک میں ایرانی نمائندوں نے اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ان مظاہروں کے دوران تہران اور چند دیگر شہروں میں مظاہرین نے نہ صرف خامنہ ای کی تصاویر جلائی تھیں بلکہ ماضی کے ملکی بادشاہ کے جلاوطن بیٹے رضا پہلوی کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ اور مذہبی رہنماؤں کو اقتدار سے علیحدہ کیا جائے۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان مظاہروں کے پھیلتے جانے اور شدید تر ہوتے جانے کے بعد خامنہ ای نے اعلیٰ ملکی نمائندوں کے ساتھ جو ملاقاتیں کی تھیں، ان میں سپریم لیڈر کی ملکی صدر حسن روحانی کے علاوہ ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں اور وہ مشورے بھی جو انہوں نے سلامتی کے مشیروں کے ساتھ کیے تھے۔
'جو بھی کرنا پڑے، کرو اور یہ سب کچھ روکو‘
آیت اللہ علی خامنہ ای، جن کی عمر اس وقت 80 برس ہے اور جو ایران میں کسی بھی اہم ملکی، سیاسی اور مذہبی معاملے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے والی اعلیٰ ترین شخصیت ہیں، نے اس بارے میں غصے کا اظہار کیا تھا کہ نومبر کے دوسرے نصف حصے کے آغاز سے ہی احتجاجی مظاہرین نے نہ صرف خامنہ ای کی تصاویر جلائی تھیں بلکہ ساتھ ہی انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کے ایک مجسمے کو نقصان بھی پہنچایا تھا۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ تب علی خامنہ ای نے ملکی حکام سے کہا، ''اسلامی جمہوریہ خطرے میں ہے۔ جو کچھ بھی کرنا پڑے، وہ کرو اور یہ سب کچھ ختم کراؤ۔ میں تمہیں اس کا حکم دے رہا ہوں۔‘‘
ایک انتہائی قابل اعتماد ذریعے نے بتایا کہ سپریم لیڈر نے ایرانی حکام کے اس اعلیٰ اجلاس کے شرکاء سے یہ بھی کہا کہ تب ایران میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا، اگر حکام اسے بند کروانے میں ناکام رہتے تو علی خامنہ ای انہی حکام کو ذاتی طور پر اس کا ذمے دار ٹھہراتے۔
مظاہرین کو 'پوری طاقت سے کچل دینے‘ کا پختہ عزم
سترہ نومبر کے اجلاس کی کارروائی کی تصدیق کرنے والے ذرائع میں سے ایک نے بتایا، ''ہمارے دشمن ایران میں اسلامی انقلاب کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے فوری اور فیصلہ کن ردعمل لازمی تھا۔‘‘ ان ذرائع میں سے ایک دوسرے نے روئٹرز کو بتایا، ''ہمارے امام (سپریم لیڈر علی خامنہ ای) صرف خدا کو جواب دہ ہیں۔ انہیں عوام اور اسلامی انقلاب کی فکر رہتی ہے۔ اسی لیے اس بارے میں ان کی سوچ بہت پرعزم تھی کہ فسادات پر اتر آنے والے مظاہرین کو پوری طاقت سے کچل دیا جانا چاہیے تھا۔‘‘
ایران میں وسط نومبر سے شروع ہو کر گزشتہ ماہ کے اواخر تک جاری رہنے والے یہ عوامی احتجاجی مظاہرے نہ صرف انتہائی حد تک سیاسی رنگ اختیار کر گئے تھے بلکہ ان کا دائرہ مجموعی طور پر ملک کے 100 سے زائد شہروں اور قصبوں تک بھی پھیل گیا تھا۔
م م / ک م (روئٹرز)