خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام، بھارتی لڑکوں کی تربیت
12 دسمبر 2013ممبئی میں ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی، ٹین کی چادروں سے بنا ایک گھر اور اُس میں جاری ایک ڈرامہ جس میں کئی نوجوان لڑکے بظاہر لڑکیوں کے طور پر سبزیاں خریدنے جا رہے ہیں۔ اس ڈرامے میں کئی نوجوان لڑکیاں لڑکوں کو گالیاں دے رہی ہیں۔ لڑکے ہراساں بھی ہیں اور پریشان بھی۔
بھارتی معاشرے میں دراصل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے لیکن اس ڈرامے میں کردار بدل دیے گئے ہیں۔ اس ڈرامے اور اس کے ذریعے دیے جانے والے پیغام کا مقصد کیا ہے؟ یہ بات سولہ سالہ سلمان شیخ کے چہرے سے پڑھی جا سکتی ہے۔ وہ ہے تو ایک لڑکا لیکن اس ڈرامے میں اس کا کردار ایک لڑکی کا ہے۔ وہ کوئی مجرم نہیں بلکہ ایک عام سا سابھارتی لڑکا ہے۔ لیکن اسے سمجھ آ گئی ہے کہ اگر نشانہ لڑکے بنیں تو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جانا کوئی ”چھوٹا سا بے ضرر مذاق‘‘ نہیں بلکہ ایک جرم ہوتا ہے۔
نئی دہلی میں گزشتہ دسمبر میں ایک بس میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے بعد سے بھارت میں کئی غیر سرکاری سماجی تنظیموں کی طرف سے ایسے پروگرام چلائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد نوجوان لڑکوں کو لڑکیوں اور خواتین کے احترام کی تربیت دینا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے لڑکوں کو تھیئٹر اور دیگر ذرائع سے جنسی امور کے بارے میں حساسیت اور مخالف صنف کے ساتھ عزت سے پیش آنے کا سبق دیا جاتا ہے۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں خواتین کے تحفط کے حوالے سے صرف قانون ہی کافی نہیں ہو سکتے، جہاں مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہے۔ بھارت کی تین سب سے زیادہ آبادی والی ریاستیں بہار، اتر پردیش اور راجستھان ہیں۔ وہاں جاگریتی یوتھ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے نوجوانوں کے لیے مختلف لیڈرشپ پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس تنظیم کی بانی ڈاکٹر ریما نندا کہتی ہیں کہ قانون صرف اسی وقت مؤثر ثابت ہو گا جب سماجی روایات اور اقدار میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ڈاکٹر ریما نندا کہتی ہیں، ”یہ یقینی بات ہے کہ قوانین مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن قوانین کو مؤثر بنانے کے لیے تبدیلی ضروری ہے اور تبدیلی لازمی طور پر معاشرے کے اندر سے آنی چاہیے۔‘‘
ممبئی میں ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی دھاروی کی ایک جھونپڑی میں پیش کیا جانے والا ڈرامہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ بھارتی معاشرے میں تبدیلی صرف قانون کے ذریعے نہیں بلکہ معاشرے کے اندر سے آنی چاہیے۔
یہ ڈرامہ جس تنظیم کے تعاون سے کیا جا رہا ہے، اس کا نام سوسائٹی برائے غذائیت، تعلیم اور ہیلتھ ایکشن یا SNEHA ہے۔ اس تنظیم نے نوجوانوں کی تبدیلی کے خواہش مند افراد کے طور پر باقاعدہ رجسٹریشن کرتے ہوئے یہ پروگرام گزشتہ برس شروع کیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مختلف رول دیے جاتے ہیں اور پھر کمیونٹی میٹنگز کے ذریعے ان میں سماجی اور اخلاقی احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بھارت کی آبادی میں مردوں کا تناسب خواتین کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ہے۔ سن دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق ملک کی قریب ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں ہر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد صرف 943 بنتی تھی۔ اس کے علاوہ دو ہزار بارہ میں یونیسف نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں لڑکپن کے دور سے گزرنے والے شہریوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جو 243 ملین بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان نوجوانوں کے لیے مختلف شعبوں اور پروگراموں میں پالیسی سازی اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔